سعودی عرب نے رواں برس محدود تعداد میں عازمین کو حج کی اجازت دی ہے جس کے بعد یہ سوال یقیناََ آپ کے ذہن میں بھی گردش کر رہا ہوگا کہ ان افراد کا انتخاب آخر کیسے کیا گیا ہے؟
حج دنیا میں ہونے والے بڑے انسانی اجتماعات میں سے ایک ہے۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے حالیہ دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دیگر ممالک کے لاکھوں عازمین کو حج کی اجازت نہیں مل سکی ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سعودی حکام نے مکہ میں مسلمانوں کے مقدس مقام مسجد الحرام میں عبادات کو محدود کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود سعودی عرب میں مقیم ہزاروں افراد نے حج کے لیے درخواستیں ارسال کی تھیں۔ جن میں سے قرعہ اندازی کے ذریعے 10 ہزار افراد کا انتخاب کیا گیا ہے۔
سعودی حکومت نے سعودی عرب میں مقیم 160 ممالک کے شہریوں سے بھی آن لائن درخواستیں طلب کی تھیں اور کہا تھا کہ رواں برس منتخب ہونے والے 70 فی صد عازمینِ حج غیر ملکی تارکین وطن ہوں گے۔
اس سال حج کے لیے منتخب ہونے والے افراد میں دارالحکومت ریاض میں مقیم اردن کے ایک 29 سالہ انجینئر اور ان کی 26 سالہ اہلیہ بھی شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حج کے لیے اس قدر زیادہ درخواستیں آئی تھیں کہ ہمیں ایک فی صد بھی امید نہیں تھی کہ رواں برس حج کے لیے ہمارا انتخاب ہو گا۔
ان کے بقول قرعہ اندازی میں حج کے لیے منتخب ہونے پر جہاں وہ حیرت کا شکار ہوئے وہیں انہیں بہت زیادہ خوشی بھی ہوئی۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے حج کے لیے منتخب ہوجانے سے متعلق سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ بھی اس وجہ سے ڈیلیٹ کردی کہ کہیں اس بنیاد پر ان کی درخواست مسترد نہ کردی جائے۔
ریاض میں ہی مقیم نائیجیریا کے ناصر بھی اپنے انتخاب پر بہت خوش ہیں اور اس بار حج کی اجازت کو 'گولڈن ٹکٹ' سے تشبیہہ دیتے ہیں۔
ناصر نے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے احساسات کو بیان کرنا مشکل ہے۔
واضح رہے کہ ہر سال حج کے لیے سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے ممالک کے شہریوں کا کوٹا مخصوص ہوتا ہے۔ اس مخصوص کوٹے کے تحت حج کے لیے مکہ آنے والے عازمین کا انتخاب بیشتر ملکوں میں قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس 25 لاکھ کے قریب افراد نے حج کیا تھا جن کا تعلق دنیا کے لگ بھگ 200 ملکوں سے تھا۔
کرونا کی وبا کے زور پکڑ جانے کے بعد سعودی حکام نے پہلے کہا تھا کہ رواں برس حج کے لیے صرف ایک ہزار افراد کو اجازت دی جائے گی۔ البتہ مقامی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ اب 10 ہزار کے قریب افراد کو حج کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سعودی عرب کی وزارتِ حج کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے اور کئی افراد اپنی مسترد ہونے والی درخواستوں کے اسکرین شاٹس لگا کر سوال کر رہے ہیں کہ ان کی درخواست مسترد ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
بعض خواتین نے جن میں بیوائیں بھی شامل ہیں کہا ہے کہ ان کی درخواستیں شاید اس وجہ سے مسترد کی گئی ہیں کیوں کہ ان کے ہمراہ کوئی مرد محرم نہیں تھا۔
سوشل میڈیا پر بعض صارفین یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کیا اس بار حج کے لیے سفارت کاروں، کاروباری شخصیات یا شاہی خاندان کے افراد کو بھی اجازت دی گئی ہے یا نہیں؟
سعودی وزارتِ حج کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے شہریوں میں سے ان افراد کو حج کے لیے منتخب کیا گیا ہے جن کا تعلق فوج سے ہے یا وہ صحت کے ماہرین ہیں اور کرونا وائرس سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم حکومت نے یہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے کہ کتنے غیر ملکیوں نے حج کے لیے درخواست دی اور ان کے انتخاب کے لیے قرعہ اندازی کس طرح کی گئی۔
اس معاملے پر برطانیہ کے 'رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ' سے وابستہ ماہر عمر کریم کہتے ہیں کہ سعودی حکام نے سارے معاملے کو اس لیے مخفی اور مبہم رکھا ہے کیوں کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔
ان کے بقول اس عمل کو عوام کی نظروں سے دور رکھنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ اس بارے میں کم سے کم شور ہو کہ حج کے لیے کسے اور کس بنیاد پر منتخب کیا گیا۔
سعودی خبر رساں ادارے 'عرب نیوز' کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ عازمین حج کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں کی کوشش ہو گی کہ کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال میں عازمین کے مابین سماجی دوری برقرار رہے۔
خیال رہے کہ سعودی حکام نے حج کے لیے منتخب افراد کو پہلے ہی ایک ہفتے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں خود کو قرنطینہ کرنے کے احکامات دے دیے ہیں۔
یہ عازمین سات دن تک قرنطینہ کے بعد حج کے مناسک میں شریک ہوں گے۔