امریکہ میں مقیم علیحدگی پسند سکھ رپنما کے قتل کی سازش سامنے آنے کے بعد بعض حلقے امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں سردمہری کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ، بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرے گا۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ بدھ کو امریکی محکمۂ انصاف کی جانب سے بھارتی شہری پر فرد جرم عائد ہونے کے باوجود دونوں ممالک اس معاملے کو پیچھے چھوڑنے پر تیار نظر آتے ہیں۔
فردِ جرم میں کہا گیا ہے کہ بھارتی سیکیورٹی اور انٹیلی جینس سے وابستہ ایک عہدے دار نے 52 سالہ بھارتی شہری نکھل گپتا کے ساتھ مل کر رواں سال موسمِ گرما میں نیویارک میں مقیم سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
فردِ جرم میں مذکورہ بھارتی عہدے دار کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
نکھل گپتا پر امریکہ میں قتل، سازش اور دھوکہ دہی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ قتل کی سازش کا علم ہونے پر رواں برس جولائی میں بھارت سے اس معاملے کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
صدر بائیڈن نے سینٹرل انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ کو بھی اس ضمن میں نئی دہلی بھیجا تھا جب کہ ستمبر میں جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے دوران بھی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے سامنے یہ معاملہ رکھا تھا۔
گزشتہ ماہ امریکی وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع نے بھی بھارت کا دورہ کیا جس میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا جب کہ سکھ رہنما کے قتل کا منصوبہ سامنے آنے پر بھی امریکہ کی جانب سے سرکاری سطح پر نپا تلا ردِعمل ظاہر کیا گیا۔
امریکی سرزمین پر قتل کی سازش 'سنگین معاملہ'
امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے قتل کی اس سازش کو 'سنگین معاملہ' قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ، بھارت سے توقع کرتا ہے کہ وہ آئندہ ایسی کوئی بھی سرگرمی نہیں ہونے دے گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس معاملے پر تحفظات کے باوجود بائیڈن انتظامیہ بھارت کے ساتھ شراکت داری کو وسعت دینے کے 'پرجوش ایجنڈے' پر عمل پیرا ہے۔
خارجہ اُمور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس معاملے پر امریکہ کا ردِعمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنی وسیع البنیاد شراکت داری کو خراب نہیں کرنا چاہتا۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی سابق ڈائریکٹر لیزا کرٹس کہتی ہیں کہ "بائیڈن انتظامیہ اس معاملے کو اسٹریٹجک شراکت داری سے الگ رکھنا چاہتی ہے۔"
اُن کے بقول بائیڈن، بھارت کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُنہیں اُمید ہے کہ بھارت ایشیا میں چینی عزائم کا مقابلہ کرے گا اور روس سے دُور رہے گا کیوں کہ امریکہ یوکرین جنگ کے باعث ماسکو کو عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتا ہے۔
ایک، دوسرے کی ضرورت
رواں برس جون میں کینیڈا میں قتل ہونے والے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا الزام بھی کینیڈا نے بھارت پر عائد کیا تھا۔
کینیڈین وزیرِ اعظم نے ستمبر میں پارلیمنٹ میں اپنے جارحانہ خطاب میں بھارت کو اس قتل کا ذمے دار ٹھہرایا تھا جس پر بھارت نے بھی سخت ردِعمل دیا تھا۔
اس معاملے پر کینیڈا اور بھارت کے درمیان سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا اور دونوں ملکوں نے ایکدوسرے کے سینئر سفارت کاروں کو ملک سے بے دخل کر دیا تھا۔
خالصتان تحریک کے اہم رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو رواں برس 18 جون کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں قتل کر دیا گیا تھا۔
بھارت کی جواہر لعل یونیورسٹی سے وابستہ خارجہ اُمور کے ماہر ہیپی مون جیکب کہتے ہیں کہ "بھارت کے امریکہ کی طرح کینیڈا کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات نہیں ہیں۔"
اُن کے بقول بھارت اور امریکہ کو ادراک ہے کہ انہیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے، شاید امریکہ کو بھارت کی زیادہ ضرورت ہے۔"
واشنگٹن کے سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹیڈیز میں بھارتی اُمور کے ماہر رچرڈ رسوو کہتے ہیں کہ منصوبے کی ٹائم لائن سے پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت کو بھارت کے ساتھ اعلٰی سطح مصروفیات سے بہت پہلے اس کا علم ہو چکا تھا۔
اُن کے بقول اس معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان کچھ سرد مہری کے باوجود یہ معاملہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو ڈی ریل کرنے کا باعث نہیں بنا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ گو کہ بھارت کے ساتھ شراکت داری کے باعث امریکی حکام نے اس معاملے کو بھارت کے ساتھ کشیدگی کا باعث نہیں بننے دیا، لیکن امریکی سرزمین میں اس طرح کی سازش کا منصوبہ بہرحال امریکہ کے لیے پریشان کن ہے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔