افغانستان میں صحافتی حقوق اور آزادی کی حمایت کرنے والی ایک تنظیم، این اے آئی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2014 سے لے کر اب تک ایک ہزار سے زائد خواتین صحافی، مختلف وجوہات کی بنیاد پر صحافت کو خیر باد کہہ چکی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال بہت مخدوش ہے جب کہ میڈیا اداروں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مردوں کی تنخواہیں خواتین کی نسبت زیادہ ہیں اور اس کے علاوہ ہراسانی کے کیسز سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
وحیدہ فیضی افغان جرنلسٹس سیفٹی کمیٹی (اے جے ایس سی) کے ساتھ بطور سینئر معاون فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ یہ تنظیم افغانستان میں میڈیا کارکنوں کے لیے ایک محفوظ ماحول میں کام کرنے کے حوالے سے کام کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وحیدہ فیضی نے بتایا کہ جب لڑکیوں کو تنخواہ مردوں کے مقابلے میں کم یا سرے سے دی ہی نہ جائی یا اس بابت ان سے امتیازی سلوک روا رکھا جائے تو ظاہر ہے یا تو وہ اس شعبے کو خیر باد کہیں گیں یا پھر کسی دوسرے شعبے کو ترجیح دیں گیں۔
وحیدہ فیضی کے مطابق معاشی مشکلات کے علاوہ افغانستان کی داخلی صورتِ حال بھی بہت زیادہ خراب ہے۔ آئے روز بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد ان کے گھر والے بھی اپنی بچیوں کو باہر جانے سے روکنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کے بقول انہیں بھی کام کے حوالے سے اپنے خاندان کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ کیوں کہ کوئی پتا نہیں چلتا کہ کب کہاں گولی چل جائے یا دھماکہ ہو جائے۔
'ایک اندھی جنگ چل ری ہے'
طالبان اور امریکہ کے مابین گزشتہ سال فروری میں امن معاہدہ اور اس کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان امن مذاکرات کے شروع ہونے کے بعد افغان عوام کو توقع تھی کہ اب ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔ لیکن شدت پسندی کے واقعات میں تیزی آ گئی ہے۔ جس کا الزام فریقین ایک دوسرے کو ٹھیراتے ہیں۔
صحافتی حقوق اور آزادی کی حمایت کرنے والے ادارے، این اے آئی، کے مینجنگ ڈائریکٹر عبدالمجیب خلوتگر کا کہنا ہے کہ گزشتہ چھ سالوں میں خواتین بے روزگار صحافیوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
ان کے مطابق امن و امان کی ناقص صورتِ حال اور سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے اداروں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر افراد کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ کچھ ثقافتی اور علاقائی مسائل بھی ہیں۔
اُن کے بقول ایک ایسے ماحول میں جہاں شہروں، دیہات حتٰی کہ چھوٹے چھوٹے قصبوں میں بھی شورش برپا ہو اور تشدد کی لہر میں آئے روز درجنوں افراد کے مارے جانے کی اطلاعات مل رہی ہوں تو ایسے میں گھر والے اپنی بچیوں کو گھر سے باہر جانے میں ہجکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
عبدالمجیب خلوتگر کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک ان کے ادارے کو جنسی ہراسانی سے متعلق شکایات موصول نہیں ہوئیں جس کے باعث کسی خاتون صحافی نے کام چھوڑ دیا ہو۔
تاہم انہوں نے اس تاثر کو مکمل طور پر رد نہیں کیا اور بتایا کہ یہ ممکن ہے کہ دفتروں میں وہ ہراسمنٹ یا مرد ساتھیوں کے رویے سے پریشان ہوں۔ کیوں کہ افغانستان کا معاشرہ ابھی تک اتنا روشن خیال نہیں ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کو مناسب ورک سپیس کے مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وحیدہ فیضی 'این اے آئی' کے مینجنگ ڈائریکٹر سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صورتِ حال مردوں کے لیے بھی آہستہ آہستہ تشویش ناک بنتی جا رہی ہے۔کیوں کہ تمام مقامی ادارے مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
وحیدہ فیضی کے مطابق افغانستان کا معاشرہ بہت قدامت پسند ہے۔ چار دہائیوں سے جاری جنگ اور شورش کی وجہ سے خواتین بہت سارے مسائل سے دوچار ہیں۔ ایسے میں مرد رپورٹرز ان کے خیالات کی صحیح معنوں میں عکاسی نہیں کر سکتے۔
اُن کے بقول خواتین صحافیوں کا افغانستان کی ترقی میں ایک بہت اہم کردار ہے۔ اور صرف وہ ہی افغان خواتین کو درپیش مسائل اور چیلنجز کو اُجاگر کر سکتی ہیں۔
گزشتہ ماہ افغان وزیرِ داخلہ کی جانب سے پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران طالبان کی جانب سے 35 خود کش حملوں میں تقریباً 500 شہری ہلاک جب کہ ایک ہزار سے زاید افراد زخمی ہوئے۔
اسی عرصے میں پانچ سو سے زائد بم دھماکے بھی ہوئے۔ تازہ حملوں میں سیاست دان، حکومتی و سویلین اہلکاروں اور صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گزشتہ دو ماہ کے دوران افغانستان میں کم از کم پانچ صحافی قتل ہو چکے ہیں۔ ان میں خاتون صحافی ملالئی میوند بھی شامل ہیں جن کو دفتر جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی میں نشانہ بنایا۔
اس حملے کی بعد میں شدت پسند تنظیم داعش نے ذمہ داری قبول کی تھی۔
مبصرین اس نئی روایت کو کافی تشویش ناک قرار دیتے ہیں۔
عبدالمجیب کا مزید کہنا تھا کہ خواتین صحافیوں کی عدم موجودگی میں صحافتی اداروں کی نشریات پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔
انہوں نے مزید واضح کیا کہ "ہم دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا میں خواتین صحافیوں کی کمی کو مردوں کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے۔ اور اگر یہ سلسہ طول پکڑتا ہے تو اس سے یقیناً خواتین کے حقوق متاثر ہوں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ مرد کا طرزِ فکر قدرتی طور پر خواتین کی سوچ اور فکر سے مختلف ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ خواتین کے مسائل اُجاگر کرنے میں بھی بھی کمی آئے گی جس کے مستقبل میں بہت خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ لہذٰا صحافتی اداروں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی کمی کو ہر لحاظ سے روکنے پر کام کرنا ہو گا۔