مئی 2021 میں افغانستان امریکی انخلا کی طرف بڑھ رہا تھا اور پاکستانی حکومت ان کی موجودگی میں ہی پاک افغان سرحد پر باڑ لگانےمیں تیزی لا چکی تھی۔ اس دوران بلوچستان کے ضلع ژوب سے ملحقہ منزکی سیکٹر کے قریب بارڈر پر افغانستان کی جانب سے باڑ لگانے والی سیکیورٹی ٹیم پر حملہ ہوا۔
اس حملے میں چار سیکیورٹی اہل کار ہلاک جب کہ چھ زخمی ہو گئے۔ پاکستان کو آنے والے خطرات کا اندازہ تھا اس لیے دراندازی کی روک تھام کے لیے باڑ لگائی جا رہی تھی۔
تاہم 15 اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان کی آمد اور پاک افغان سرحد پر باڑ کے باوجود بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
15 اگست 2021 کے بعد اس خطے میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ بلوچستان میں بلوچ مزاحمت کاروں اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ چین کے خلاف پاک افغان سرحد کے آر پار کارروائیاں شدت اختیار کر رہی ہیں اور ایسے میں سی پیک کے روٹ پر واقع ژوب میں کچھ عرصے سے پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
تازہ کارروائی میں بدھ کو ژوب چھاؤنی پر دہشت گردوں کے حملے میں نو سیکیورٹی اہل کار جان کی بازی ہار گئے تھے۔ پاکستانی فوج نے جوابی کارروائی میں پانچ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
کابل میں طالبان کی آمد کے اثرات بلوچستان پر کیسے پڑے؟
کئی دہائیوں سے افغانستان میں جاری شورش سے خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان بھی ہر لحاظ سے متاثر ہو رہا ہے۔
سن 2015 میں سابق فاٹا سمیت ملک بھر میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز کے بعد امن وامان کی حالت کافی بہتر ہو چکی تھی۔ تاہم آپریشنز کے باعث عسکریت پسند اور ان کی قیادت افغانستان منتقل ہو گئی۔
جب افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے انخلا کی بحث شروع ہوئی تو افغانستان میں حکومت کے خلاف کارروائیوں میں مزید شدت آ گئی۔ جب طالبان نے 15 اگست 2021 کو افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو اس کے ٹھیک ایک سال بعد اگست 2022 میں پاکستانی طالبان سوات میں داخل ہوئے۔ لیکن شدید عوامی ردِعمل کے باعث سیکیورٹی فورسز نے ان عسکریت پسندوں کو سوات سے نکلنے پر مجبور کیا۔
اس دوران عسکریت پسندوں نے خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں حملے شروع کر دیے۔ اس کے علاوہ عسکریت پسندوں کے حملے بلوچستان میں بھی شدت اختیارکرنے لگے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کانفلکٹ اسٹیڈیز کی رپورٹ کے مطابق صرف بلوچستان میں 75 حملوں میں 100 افراد ہلاک جب کہ 163 زخمی ہوئے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف سنیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 'افغان جہاد' کے دنوں سے ہم افغانستان کے اثرات پاکستان پر اور خصوصاً بلوچستان پر دیکھ رہے ہیں۔
اُن کے بقول پہلے جب طالبان کی حکومت تھی اس کے اثرات اس طرح نہیں تھے۔ اب کی بار ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہ سوچ تھی کہ افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد بلوچ مزاحمت کاروں اور ٹی ٹی پی کے لیے زمین تنگ پڑ جائے گی، لیکن صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق سابق افغان صدر ڈاکٹراشرف غنی کے دور میں سرحد پر لگی باڑ کو اس طرح نہیں چھیڑا گیا جس طرح اب جگہ جگہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ واقعات ہوتے تھے لیکن اس طرح نہیں تھے۔ اب تو ٹی ٹی پی افغانستان میں آرام سے بیٹھی ہے اور یہاں بلوچستان میں کارروائیاں جاری ہیں۔
اُن کے بقول اس دوران یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹی ٹی پی اور بلوچ مزاحمت کاروں کی نزدیکیاں کہاں تک ہیں؟
مبصرین کے مطابق افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد بلوچ عسکریت پسند دھڑے ٹی ٹی پی میں شامل ہونے لگے ہیں۔
ماضی میں بلوچستان میں بلوچ مزاحمت کاروں کا نیٹ ورک تو موجود تھا لیکن تحریکِ طالبان کا اعلانیہ انتظامی ڈھانچہ نہیں تھا۔تاثر یہ تھا کہ بلوچ قوم مذہبی انتہاپسندی کی طرف رحجان نہیں رکھتی۔
لیکن طالبان کی افغانستان میں آمد کے بعد جون 2022 میں نوشکی سے ملا اسلم بلوچ نے ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کر لی۔ دسمبر 2022 میں مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے مزار بلوچ نے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
اس کے بعد اپریل 2023 میں قلات سے اکرم بلوچ اور کوئٹہ سے عاصم بلوچ نے تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی امیر مفتی نور ولی محسود کے ہاتھ پر بیعت کی۔ گویا ایک سال میں چار بلوچ دھڑوں نے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔یہ وہ بلوچ تھے جو افغانستان میں طالبان کے ساتھ مل کر اتحادی افواج کے خلاف لڑ رہے تھے۔
ایسی ہی صورتِ حال تھی کہ جب 2023 کے لیے تقرریوں کا مرحلہ آیا تو پہلی مرتبہ ٹی ٹی پی کی جانب سے بلوچستان کے ضلع ژوب کے نام سے ولایت اور اس کے لیے سربکف مہمند کو والی یعنی گورنر مقرر کیا گیا۔
یہ بلوچستان میں ٹی ٹی پی کے انتظامی ڈھانچے کے اعلان کا پہلا مرحلہ تھا۔ جہاں تک بلوچ مزاحمت کاروں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے صحافی شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ "ہم یہ تو قطیعت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ مزاحمت کاروں نے مشترکہ کارروائیاں کی ہیں یا نہیں لیکن ان کو ایک دوسرے کا تعاون ضرور حاصل رہا ہے۔"
SEE ALSO: سی پیک کے دس سال: کیا کھویا کیا پایا؟شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ نظریاتی طور پر ان کی قربت کا تو سوال نہیں بنتا لیکن البتہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کے تناظر میں ٹی ٹی پی اور بلوچ مزاحمت کار تنظیموں کی ا آپس میں سہولت کاری خارج از امکان نہیں ہے۔
اُن کے بقول مستقبل میں اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ مشترکہ کارروائیاں کریں لیکن فی الوقت ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا کہ اس میں دونوں تنظیموں نے مشترکہ کارروائی کا دعویٰ کیا ہو۔"
وزیرِ اعلٰی بلوچستان کے ترجمان بابر یوسفزئی نے بتایا کہ پاکستان کے خلاف مزاحمت کاروں کو افغانستان میں آشیرباد حاصل رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ مزاحمت کاروں کے گٹھ جوڑ کو حکومت سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
سیکیورٹی ادارے بلوچستان میں جنم لینے والی ایک نئی عسکریت پسند تنظیم 'تحریک جہاد پاکستان' پر نظر رکھے ہوئے ہیں جس نے رواں برس فروری میں چمن میں ایک حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
واضح رہے کہ اسی تنظیم نے ہی ژوب کینٹ پر حالیہ حملے کی ذمے داری بھی قبول کی ہے۔
تحریک جہاد پاکستان کیا ہے؟
فروری 2023 میں چمن میں حملے کے بعد اس تنظیم نے خبروں میں جگہ بنائی لیکن کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ تنظیم کیا ہے؟ اس کے مقاصد کیا ہیں اور ان کے جنگجو کون ہیں؟
زیادہ تر حلقوں کا یہ خیال تھا کہ یہ صرف ڈیجیٹل حد تک ایک تنظیم ہے جو مختلف حملوں کی ذمے داری قبول کرتی ہے۔ تاہم سوات اور لکی مروت میں حملوں کی ذمے داری لینے کے بعد کئی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ شمالی وزیرستان کے عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر اور تحریک طالبان کے اس طرح کے دھڑوں کا میڈیا کی حد تک نیا پلیٹ فارم ہے۔
تحریک کے ترجمان ملا قاسم کے مطابق یہ تنظیم ان جنگجوؤں پر مشتمل ہے جو افغانستان میں روس اور پھر بعدازاں امریکہ کے خلاف 'جہاد' میں حصہ لے چکے ہیں۔
اُن کے بقول "ہماری جدوجہد دراصل تحریک ریشمی رومال کا تسلسل ہے (یہ تحریک ہندوستان کے دیوبندی علما نے برطانوی حکومت کے خلاف 1913 سے 1920 تک چلائی تھی) کیوں کہ 75 برسوں میں اسلامی ریاست کا خواب پورا نہیں ہو سکا، لہذٰا ہم بزور طاقت اس جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔"
ملا قاسم کے مطابق تحریک جہاد پاکستان کے سربراہ عبداللہ یاغستانی ہیں جو کراچی کے جامعہ فاروقیہ سے فارغ التحصیل ہیں اور افغانستان میں امریکی اتحادی افواج کے خلاف لڑ چکے ہیں۔ ملاقاسم نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ابھی تک کسی کی بیعت نہیں کی یہاں تک کہ افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بھی بیعت نہیں کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
حال ہی میں جب بلوچستان کے ضلع ژوب میں واقع کینٹ پر عسکریت پسندوں کا حملہ ہوا تو ملا قاسم نے ذمے داری قبول کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی اس کی ذمے داری لینے سے گریز کرے۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے بھی ژوب حملے کو سراہتے ہوئے ذمے داری قبول نہیں کی تھی بلکہ بیان میں کہا کہ ان کے "بھائیوں" نے یہ کارروائی کی ہے۔ بعد ازاں ژوب حملے کی تفصیلات بھی تحریک جہاد پاکستان نے جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مولوی مسلم کی سربراہی میں پانچ رکنی ٹیم نے یہ حملہ کیا تھا۔
ژوب اور ملحقہ علاقے عسکریت پسندوں کے نشانے پر کیوں؟
ژوب پاکستان کا وہ ضلع ہے کہ جسے اگر پاکستان کا مرکز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ علاقہ ایک طرف تو پنجاب کے ڈیرہ غازی خان سے قریب ہے تو دوسری جانب خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع جنوبی وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ بھی اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔ افغانستان کے ساتھ بھی اس کی سرحدیں لگتی ہیں۔
گویا اس کے اردگرد عسکریت پسندی کی طویل تاریخ موجود ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ بظاہر پرامن نظر آتا تھا لیکن خودکش حملہ آوروں کے بانی قاری حسین سے لے کر افغان طالبان کے کئی رہنما یہاں پناہ میں رہ چکے ہیں۔
لیکن سب سے اہم اس کا جغرافیہ ہے۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کی ایک اہم شاہراہ ژوب سے گزرتی ہے۔ اعدادوشمار کے حساب سے دیکھیں تو ژوب چین کی سرحد سے لگ بھگ اتنا ہی دور ہے جتنا دور ژوب گوادر سے ہے۔
چین کی سرحد تک ژوب سے لگ بھگ 1300 کلومیٹر کا فاصلہ ہے جب کہ ژوب سے گوادر تک بھی لگ بھگ ایک ہزار تین سو کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔
چین پاکستان اکنامک کوریڈور تین ہزار کلومیٹر راستے کا منصوبہ ہے۔ اس طرح ژوب اس اہم ترین شاہراہ کے درمیان میں آتا ہے۔ اس لیے ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب تک این 50 کے نام سے 210کلومیٹر سڑک سی پیک کا حصہ ہے۔
تو کیا بلوچستان میں یہ شورش سی پیک کے باعث ہے؟
14 جولائی 2021 کو افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے انخلا سے ٹھیک ایک ماہ قبل کوہستان کے علاقے داسو میں تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر طارق عرف 'بٹن خراب' کا چینی باشندوں کی بس کو نشانہ بنا کر نو چینی باشندوں کا قتل ایک واضح ثبوت کہ ٹی ٹی پی میں کچھ چین مخالف عناصر موجود ہیں۔
"جہاں تک بلوچ مزاحمت کاروں کا تعلق ہے تو ان کا تو ایک واضح نکتہ نظر موجود ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچ قوم کے وسائل کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے چین کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر وہ بھی اس استحصال میں شامل ہوں گے تو ظاہری بات ہے کہ نشانے پر ہوں گے۔
صحافی شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ٹی ٹی پی کی جانب سے اتنا واضح موقف تو کبھی سامنے نہیں آیا لیکن اس حوالے سے ان کی بھی کوئی پالیسی ہو گی۔"
یہ بات اب بلوچ مزاحمت کاروں اور تحریک طالبان پاکستان میں مشترک پائی جا رہی ہے کہ دونوں پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں یکسوئی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔