ماہرین کا کہنا ہے کہ معمول سے پہلے 'ایل نینو 'کے آغاز کی وجہ سے گرم اور خشک موسم پورے ایشیاء میں چاول کی پیداوار کو متاثر کرے گا جس سے عالمی غذائی تحفظ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
’ایل نینو‘ بحرا لکاہل کے ایک حصے کی قدرتی، عارضی اور کبھی کبھار ہونے والی گرمائش ہے جو عالمی موسمی پیٹرنز کو بدلتی ہے اور اس وقت موسمیاتی تبدیلی بھی ایل نینو کو مستحکم بنانے کا کام کر رہی ہے۔
نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن نے ایل نینو کے بارے میں اعلان معمول سے تقریبأ ایک یا دو ماہ قبل جون میں کیا تھا ، اس صورت میں اسے بڑھنے کا وقت ملتا ہے۔
سائنس دانوں نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ایل نینو بڑے پیمانے پر پھیل جائے گا۔
ایل نینو کیا ہے؟
ایل نینو ایک قدرتی عمل ہے جو عام طور پر کرۂ ارض کی گرمی سے وابستہ ہے۔ اور یہ قدرتی عمل تقریباً دس سال تک جاری رہ سکتا ہے۔
یہ آب و ہوا کا ایک ایسا عمل ہے جو وسطی اور مشرقی ٹراپیکل بحر الکاہل میں سطح سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافے سے وابستہ ہے۔
ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن ( ڈبلیو ایم او) کے سیکریٹری جنرل پیٹری تالاس نے کہا ہے کہ "ایل نینو کا عمل ممکنہ طور پر عالمی درجۂ حرارت میں ایک نئے اضافے کا باعث بنے گا اور درجۂ حرارت کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات کو بڑھا دے گا۔"
اقوامِ متحدہ کےسیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ ایل نینو کا آغاز ریکارڈ آٹھ گرم ترین سالوں کے بعد ہوگا ۔
انہوں نے کہا"اگرچہ پچھلے تین سال سے’ لانینا ‘کی وجہ سےہمارے موسم ٹھنڈے ر ہے ہیں ،جس نے عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے دوران ایک عارضی وقفے کے طور پر کام کیاتھا۔"
لانینا ، ایل نینو کے برعکس سرد موسم کا قدرتی عمل ہے جس سے مراد سمندر کی سطح کے درجہ حرارت کی متواتر ٹھنڈک ہے۔
تاہم حال ہی میں غیر معمولی طور پر طویل عرصے سے جاری لا نینا کا موسمیاتی عمل ، جو 2020 میں شروع ہوا تھا اب ختم ہو گیا ہے۔
پاکستان، بھارت اور ایشیا کے دیگر ملکوں میں ایل نینو کے اثرات
ایک ’اسٹرونگ‘ ایل نینو کا مطلب پیاسی فصلوں کے لیے کم بارش ہے۔ماضی میں ایل نینو کے نتیجے میں خشک سالی سے لے کر سیلاب تک شدید موسم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایل نینو کی حالیہ پیش گوئی چاول کے کاشت کاروں کے لیے بری خبر ہے۔ خاص طور پر ایشیا میں جہاں دنیا کے چاول کا 90فی صداگایا اور کھایا جاتا ہے۔
گزشتہ سال سے عالمی اسٹاک میں کمی آئی ہے، جس کی کسی حد تک وجہ چاول کے ایک بڑے برآمد کنندہ پاکستان میں آنے والےتباہ کن سیلاب ہیں۔ اس سال کا ایل نینو چاول پیدا کرنے والے ممالک کے لیے دیگر پریشانیوں کو بڑھا سکتا ہے۔
انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایک تحقیقی تجزیہ کار عبداللہ مامون نے پیداوار میں کمی کی وجہ سے چاول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ پہلے ہی "خطرے کی گھنٹیاں" بج چکی ہیں۔
حال ہی میں عالمی اوسط درجۂ حرارت ریکارڈ بلندیوں کو چھو چکا ہے۔ ایسے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا کے مختلف حصوں میں چاول کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
تحقیقی فرم بی۔ایم۔آئی کی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ میانمار، کمبوڈیا اور نیپال کی صورتِ حال خاص طور پر کمزور ہے۔
گزشتہ سال چاول کی برآمدات پر پابندی لگانے کےبھارت کے فیصلے سےانڈونیشیا سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا، جب توقع سے کم بارش ہوئی اور ایک تاریخی گرمی کی لہر نے گندم کو جھلسا دیا تھا جس سے یہ خدشات بڑھ گئے کہ خوراک کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدوڈو نے پیر کے روز اپنے وزراء سے کہا کہ وہ طویل خشک موسم کی توقع کریں۔ اور فلپائن میں، حکام خطرے سے دوچار علاقوں کی حفاظت کے لیے احتیاط سے پانی کا انتظام کر رہے ہیں۔
’اسٹیٹ آف دی گلوبل کلائمیٹ‘ رپورٹ
’مدر ارتھ ڈے‘کے موقع پر جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سطح سمندر میں اضافہ اور سمندر کی گرمی نئی بلندیوں تک پہنچ گئی ہے جب کہ گرین ہاؤس گیسوں کی ریکارڈ سطح زمین، سمندر اور فضا میں تبدیلیوں کا باعث بنی۔
بڑے پیمانے پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں گزشتہ سال دنیا بھر کو مزید خشک سالی، سیلاب اور گرمی کی لہروں نے آلیا تھا جس سے لوگوں کی زندگیوں اور معاش کے لیے خطرات بڑھ گئے۔
رپورٹ میں شدید موسم کے بہت سے سماجی و اقتصادی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے جنہوں نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ غیر محفوظ لوگوں کی زندگیوں میں تباہی مچا دی ہے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔