پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا لاہور کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کا دورہ اب بھی عوامی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ آرمی چیف نے 14 مارچ کو لمز میں طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ ساڑھے سات گھنٹے کے طویل سیشن میں شرکت کی تھی۔
لمز کے اسٹوڈٹنس افیئرز ڈپارٹمنٹ کے زیرِ اہتمام اس تقریب میں ہونے والی گفتگو کے حوالے سے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ یا لمز انتظامیہ کی جانب سے کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
سیشن میں شریک طلبہ کے مطابق آرمی چیف کے طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ سیشن کے لیے دو گھنٹے مختص کیے گئے تھے، لیکن 12 بجے شروع ہونے والا یہ سیشن شام ساڑھے سات بجے تک جاری رہا۔
طلبہ کے مطابق آرمی چیف سے ملک کے سیاسی معاملات، پاکستانی فوج پر بعض حلقوں کی جانب سے ہونے والی تنقید، سیاست میں مداخلت کے الزامات سمیت علاقائی صورتِ حال پر سوالات ہوئے جن کا اُنہوں نے تفصیلی جواب دیا۔
ملک کے معروضی سیاسی حالات اور خطے کی صورتِ حال کے تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے لمز میں اس سیشن کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
سینیٹ کی دفاعی اُمور کمیٹی کے سربراہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) میں فوجی افسران کو مختلف موضوعات پر لیکچر دینے والے سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ سابق فوجی سربراہ جنرل ضیاالحق کی طرح سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے جنرل ہیں جنہیں 'تھنکنگ جنرل' کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔
اُن کے بقول جنرل باجوہ کاکھلا ڈلا انداز ہی اُنہیں ملکی، سیاسی اور علاقائی معاملات پر سویلینز کے ساتھ آرام دہ ماحول میں طویل بات چیت میں مدد دیتا ہے۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ لمز کے طلبہ سے ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں سیاست دانوں کے ساتھ گھنٹوں طویل سیشن، کراچی میں بزنس کمیونٹی کے ساتھ طویل نشست اور این ڈی یو میں صحافیوں کے ساتھ بھی جنرل باجوہ کئی کئی گھنٹے ملکی موضوعات پر بات چیت کر چکے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار عمار مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے کہ آرمی چیف براہ راست طلبہ سے خطاب کریں۔
اُن کے بقول سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اپنے دور کے اختتام پر کتاب لکھ کر اپنے دور میں کیے گئے اقدامات کا جواز تراشنے کی کوشش کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمار مسعود کا کہنا تھا کہ اس طویل سیشن کے جو مندرجات سامنے آ رہے ہیں، ان میں بھی یہ تاثر مل رہا ہے کہ فوجی سربراہ نے فوج کے جن اقدامات پر اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
خیال رہے کہ لاہور کی لمز یونیورسٹی کے حوالے سے عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ یہاں زیادہ تر طلبہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ لمز کے طلبہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔
اُن کے بقول لمز کا شمار امریکہ میں ہارورڈ اور لندن میں لندن اسکول آف اکنامس اینڈ پولیٹیکل سائنس (ایل ایس ای) کی طرز کی یونیورسٹیز میں ہوتا ہے، جہاں کے زیادہ تر طلبہ مراعات یافتہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔
مشاہد حسین کے بقول ہارورڈ اور ایل ایس ای کی طرح لمز میں بھی طلبہ لبرل اور بائیں بازو کی سوچ رکھتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں مخصوص سوچ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
کیا دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی فوجی سربراہان تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں؟
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ امریکہ میں بھی فوجی سربراہان مختلف مواقع پر تعلیمی اداروں میں طلبہ سے خطاب کرتے رہے ہیں۔
اُن کے بقول امریکی فوج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن بھی ہارورڈ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ 2010 میں اُنہوں نے دورۂ چین کے دوران بیجنگ میں بھی طلبہ سے خطاب کیا۔
البتہ عمار مسعود کہتے ہیں کہ جب افواج پاکستان کا عوام سے رابطے کے لیے آئی ایس پی آر جیسا ادارہ موجود ہے تو ایسے میں جنرل باجوہ کا لمز جانا اُن کے بقول سمجھ سے بالاتر ہے۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ 'ففتھ جنریشن وار' کے ذریعے نوجوان نسل میں غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں، اس کے سدِباب کے لیے جنرل باجوہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود طلبہ سے مخاطب ہوں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ اس ایونٹ میں شرکت کے لیے لمز نے جنرل باجوہ کو مدعو کیا تھا، جہاں سیاسی صورتِ حال سے متعلق بھی سوالات ہوئے جن کے جنرل باجوہ نے تحمل اور خندہ پیشانی سے جواب دیے۔
خیال رہے کہ افواجِ پاکستان کو یہ گلہ رہتا ہے کہ ملک دُشمن عناصر فوج سے متعلق پاکستانی عوام کے ذہنوں میں غؒلط تاثر اُبھارنے کے لیے سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن مہم چلاتے ہیں۔
عمار مسعود کہتے ہیں ہمارے ہاں پہلے ہی ٹی وی ٹاک شوز میں ریٹائرڈ فوجی افسران اپنا نکتۂ نظر پیش کرتے رہتے ہیں۔
اُنہوں نے الزام لگایا کہ ففتھ جنریشن وار کی آڑ میں اظہارِ رائے کی آزادی اور کھل کر بولنے والے صحافیوں اور سماجی کارکنوں کی زبان بندی نہ کی جائے تو پھر ایسے سیشنز کی ضرورت نہیں رہتی۔
'فوج مسائل کا حصہ بننے کے بجائے ان کا حل چاہتی ہے'
سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ افواجِ پاکستان خود کو 'ری برینڈ' کر رہی ہے جس کا بنیادی نکتہ لمز جیسے اداروں کے طلبہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ فوج مسائل کا حصہ بننے کے بجائے مسائل کا حل چاہتی ہے۔
اُن کے بقول اس سیشن کے بعد جو فیڈ بیک آیا ہے، اس میں کئی طلبہ نے کہا ہے کہ آرمی چیف کے خطاب کے بعد فوج کے حوالے سے اُن کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔
مشاہد حسین سید کے بقول فوج یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کو حاصل نیوکلیئر ڈیٹرنس کے باعث اب روایتی جنگ کے خطرات ختم ہو چکے ہیں اور زیادہ فوکس سوشل میڈیا اور 'ہائبرڈ وار' کے اس دور میں لوگوں کے دلوں اور دماغ تک رسائی حاصل کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آرمی چیف کا لمز کا دورہ بھی اسی سلسلے کی اس کڑی تھی جہاں اُنہوں نے اُن طلبہ کے دل جیتنے کی کوشش کی جو آگے چل کر مختلف شعبوں میں اہم عہدوں پر جائیں گے۔
سینئر تجزیہ کار راشد رحمان کہتے ہیں کہ ماضی میں اُنہیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں آرمی چیف نے ساڑھے سات گھنٹے طلبہ کے ساتھ گزارے ہوں۔
اُن کے بقول جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت اس برس مکمل ہو رہی ہے، لہذٰا وہ انفرادی فائدے کے بجائے ادارے کی سطح پر فوج کا بیانیہ آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
راشد رحمان کہتے ہیں کہ آئی ایس پی آر کی سطح پر فوج کی جانب سے ڈرامے بنائے جا رہے ہیں، نغمے بن رہے ہیں۔ سینکڑوں بچے آئی ایس پی آر میں انٹرن شپ کر رہے ہیں، لیکن فوج کو وہ ریسپانس نہیں مل رہا جس کی توقع تھی۔ لہذٰا جنرل باجوہ خود مجبور ہوئے کہ وہ لمز جیسے اداروں کے دورے کریں۔
جنرل باجوہ کے لمز کے دورے پر سوشل میڈیا پر ردِعمل
جنرل باجوہ کے لمز کے دورے کو جہاں کئی طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے سراہا جا رہا ہے تو وہیں کئی اساتذہ اور طلبہ نے اُن کی آمد سے قبل سیکیورٹی انتظامات پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔
مصنفہ اور لمز کی پروفیسر ندا کرمانی نے ٹوئٹ کی کہ "ہم سب سوچ رہے ہیں کہ آخر آرمی چیف کو لمز کمیونٹی کے ساتھ سات گھنٹے گزارنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جب کہ اس گفتگو کو خفیہ رکھنے اور شریک طلبہ سے اُن کی ذاتی معلومات حاصل کی گئیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح آرمی چیف کی آمد پر لمز میں لاک ڈاؤن کیا گیا اس پر طلبہ اور اساتذہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
لمز کی پروفیسر ماہم ناصر نے اپنے شاگرد کے تاثرات اپنی ٹوئٹ میں لکھے جس میں اُن کے شاگرد کا کہنا تھا کہ ـ'میں نہیں جانتا کہ اس روز لمز میں کیا ہوا کیونکہ جس نے بھی اس سیشن میں حصہ لیا وہ پہلے اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھا، لیکن سیشن کے بعد وہ پرو اسٹیبلشمنٹ ہو گیا۔"
صحافی ملیحہ ہاشمی نے ٹوئٹ کی کہ میں لاہو رمیں پلی بڑھی ہوں اور جانتی ہوں کہ کس طرح نام نہاد دانشوروں نے لمز میں فوج کے خلاف زہر گھولا، لیکن آرمی چیف کے محض ایک دورے نے سب غلط فہمیاں دُور کر دیں، یہ بلاشبہ ایک بڑی کا میابی ہے۔
پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے ٹوئٹ کی کہ لمز کے طلبہ کے ساتھ آرمی چیف کا سیشن اچھا رہا ہو گا، لہذٰا ہم اُمید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بلوچ، وزیرستان، گلگت بلتستان اور دیگر طلبہ کے ساتھ بھی اُن کا سیشن شان دار رہے گا۔