امریکہ اور چین کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کرنے کا اس ہفتے ایک چینی عہدیدارکا ، بیان ،کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق ،یہ اشارہ دیتا ہے کہ ،بیجنگ روس سے کنارہ کرنا اور امریکہ کے ساتھ اقتصادی تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے۔
چین کے سرکاری اخبار، 'چائنا ڈیلی نیوز' کی ویب سائٹ نے رپورٹ دی ہے کہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نےواشنگٹن پر زور دیا کہ وہ چین کے بارے میں ایک معقول اور عملی پالیسی کو بحال کرے اور باہمی تعلقات کو صحیح راستے پر فروغ دے۔
سن 2017ء میں تجارت ،ٹیکنالوجی کے تبادلے اور ایشیا کے گرد چینی فوجی طاقت کے پھیلاؤ پر دونوں طاقتوں کے درمیان اختلافات کے بعد سے چین امریکہ تعلقات میں یہ پیش رفت انقلابی نوعیت کی ہوگی۔
ماسکو کے ساتھ طویل اور گہری ہوتی دوستی کے باوجود پچھلے ہفتے جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو چین نے اس کی کھلی حمایت سے گریز کیا۔
چین نے اس حملے کے خلاف امریکہ کی پشت پناہی والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر ویٹو میں روس کا ساتھ نہیں دیا اور اقوام متحدہ میں اس کے سفیر نے تجویز پیش کی کہ یوکرین مشرق اور مغرب کے درمیان پُل کا کردار ادا کرے۔
سنگاپور انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی تعلقات کے سینئر فیلو، اوہ ہی سن نے کہا ہے کہ چینی عہدیدار یہ امید کر رہے ہیں کہ امریکی جانب سے ان کی بہتر تعلقات کی تجویز کا خیر مقدم کیا جائے گا ، کیونکہ امریکہ کو دوسرے اقتصادی امور کے علاوہ خسارے کے ایک پہاڑ کا سامنا ہے۔
وانگ نے پیر کے روز کہا کہ چین ،امریکہ کے ساتھ ،جی سیون کی قیادت والے 'بلڈ بیک بیٹر ورلڈ' کے عالمی ڈھانچے کی تعمیر نو کے منصوبے میں ساتھ دینے کو تیار ہے اور اپنے 'بیلٹ اینڈ روڈ' منصوبے میں واشنگٹن کا خیر مقدم کرتا ہے۔بائیڈن امریکی سینیٹ پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ ان کے سماجی اخراجات کے دو ٹریلین ڈالر کے منصوبے کی منظوری دے جو 'بلڈ بیک بیٹر ' ہی کہلاتا ہے۔
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایڈورڈو اراریل کا کہنا ہے کہ چین امریکہ کو ریلوے اور پہلے سے تیارکردہ پلوں کی کم خرچ ٹکنالوجی کی پیشکش کر سکتا ہے،لیکن ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کی انا اسے قبول کرنے میں آڑے آسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں طاقتوں کے درمیان تلخ کلامی پہلے ہی کم ہو گئی ہے اور اب یا تو کوئی خبر نہیں ہو گی یا مثبت ہوگی،اور یہ اچھی خبر ہے۔
وانگ پیر کے روز ایک ویڈیو تقریب میں خطاب کر رہے تھےجو شنگھائی اعلامیے کی یاد میں منائی گئی تھی، جب سابق چینی لیڈر ماؤ زے تنگ اور سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کےلیے افتتاحی بیان پر دستخط کیے گئے تھے۔
وزیر خارجہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اختلافات پر قائم رہتے ہوئے بھی ہم مشترکہ مقاصد حاصل کر سکتے ہیں اور مختلف سماجی نظام رکھتے ہوئے ملکوں کے درمیان پر امن طریقے سے رہا جاسکتا ہے۔ڈیلی چائنا کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ نے کسی حقیقی معاہدے کی پیشکش نہیں کی۔وانگ نے واشنگٹن پر تنقید بھی کی کہ وہ شنگھائی اعلامیے کے اصولوں اور جذبے کی پیروی نہیں کر رہا۔
امریکی چین کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں ۔کچھ اس کے کووڈ ۔نائینٹین سے تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ کرونا وائرس سب سے پہلے دوہزار انیس میں چین میں رپورٹ ہو اتھا۔
اوکلینڈ کیلیفورنیا میں زیادہ تر چینی کاروباروں کی ایسوسی ایشن کی جنرل منیجر ،سلویا ریمپی کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے وائرس کے بارے میں ہر ایک چین کو مورد الزام ٹھہراتا ہے اور میرے خیال میں یہ تبدیل نہیں ہو گا۔