ایک جانب جہاں پاکستان میں انتخابات کا معاملہ موضوعِ بحث ہے تو وہیں بھارت میں بھی 'ون نیشن ون الیکشن' کی تجویز پر اپوزیشن جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی حکومت نے ملک بھر میں ایک ہی روز انتخابات کرانے کے لیے سابق صدر رام ناتھ کوند کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
یہ کمیٹی پارلیمان اور تمام ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت کرانے کے معاملے کا جائزہ لے کر حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
اس تجویز کا مطلب ہے کہ لوک سبھا کی تمام 543 نشستوں کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام 28 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام آٹھ علاقوں کی اسمبلیوں کی تمام نشستوں کے لیے ایک ساتھ اور ایک روز ہی الیکشن کرائے جائیں۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں ایسے وقت میں جب کہ رواں سال میں پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تیلنگانہ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات اور آئندہ سال پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں، حکومت کے اس قدم نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
حکمراں حماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور وزیر اعظم نریندر مودی یہ معاملہ بار بار اٹھاتے رہے ہیں۔ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں اسے بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے میں شامل بھی کیا گیا تھا۔
اس سے قبل پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں بھارت میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوئے تھے۔ لیکن اس کے بعد متعدد مواقع پر ریاستی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کی وجہ سے اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ مواقع پر ہونے لگے۔
حزبِ اختلاف کی متعدد جماعتوں نے حکومت کے اس قدم کی مذمت کی ہے اور اس پر قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرانے کی سازش کا الزام عائد کیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سیکریٹری ڈی راجہ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو ’ایک قوم ایک پارٹی‘ کا جنون ہے اور جب سے حزبِ اختلاف کی جماعتیں ’انڈیا‘ نامی اتحاد کے تحت اکٹھا ہوئی ہیں وہ پریشان ہے۔
اُنہوں نے نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی برس سے اس معاملے پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔
اُن کے بقول جب سے بی جے پی برسراقتدار آئی ہے وہ ایک ملک ایک تہذیب، ایک مذہب اور ایک ٹیکس کی بات کرتی رہی ہے۔ اور اب ایک ملک اور ایک الیکشن اور پھر ایک پارٹی اور ایک لیڈر کی بات ہو گی۔
شیو سینا (اودھو ٹھاکرے گروپ) کے رکن پارلیمان سنجے راوت کا کہنا ہے کہ ملک پہلے سے ہی ایک ہے۔ ہم صاف ستھرے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں نہ کہ ایک ملک اور ایک الیکشن کا۔ اس قدم کے پیچھے حکومت کا مقصد آزادانہ اور صاف ستھرے الیکشن کے انعقاد کے ہمارے مطالبے سے توجہ ہٹانا ہے۔
کانگریس نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ مہاراشٹر کانگریس کے رہنما عارف نسیم خان کا کہنا ہے کہ پہلی بار دیکھا جا رہا ہے کہ ایک سابق صدر کو اس قسم کی سیاسی کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے۔
سال 2019 میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بمشکل ایک ماہ بعد وزیرِ اعظم نے اس معاملے پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے متعدد سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس طلب کیا تھا۔
لیکن کانگریس، ترنمول کانگریس، بہوجن سماج پارٹی، سماجوادی پارٹی اور ڈی ایم کے نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ جب کہ عام آدمی پارٹی، تیلگو دیسم پارٹی اور بھارت راشٹر سمیتی نے اپنے نمائندے بھیجے تھے۔
لیکن اس کے بعد عام آدمی پارٹی نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ بی جے پی کا ایک ساتھ الیکشن کرانے کا مقصد پارلیمانی نظام کی جگہ پر صدارتی نظام اختیار کرنا ہے۔
قانونی ماہرین نے ایک ملک ایک انتخاب کے خیال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آئینی ترمیم درکار
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور معروف قانون داں عبد الرحمن ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لیے آئین میں ترمیم کے علاوہ عوامی نمائندگی ایکٹ اور ریاستوں کے انتخانی قوانین میں بھی ترامیم کرنا ہوں گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں بہت کم وقت رہ جانے اور رواں سال میں پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، اس کے باوجود حکومت ون نیشن ون الیکشن کی بات کر رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2021 میں مردم شماری ہونی تھی جو کہ نہیں ہوئی۔ جب تک مردم شماری نہ ہو جائے ووٹر لسٹ کی تجدید نہیں ہو سکتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا خیال ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی گرتی مقبولیت کی وجہ سے کیا ہے تاکہ کسی بھی طرح پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔
لوک سبھا کے سابق جنرل سیکریٹری پی ڈی ٹی آچاریہ نے نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹو ڈے‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے پارلیمنٹ کے دورانیے، صدر کی جانب سے اسے تحلیل کیے جانے اور ریاستوں میں صدر راج کے نفاذ سے متعلق آئینی دفعات میں بھی ترمیم کرنا ہو گی۔
دیگر ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں آئینی ترمیم کے لیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے دو تہائی ارکان کی حمایت ضروری ہو گی۔
لا کمیشن نے 2018 میں حکومت کے پاس ایک مسودہ جمع کر کے کہا تھا کہ ایک ساتھ تمام انتخابات کرانے سے ملک کو ہمیشہ انتخابی موڈ میں رہنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ سرکاری خزانے پر پڑنے والا بوجھ کم کیا جا سکے گا، انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز پر بھی کم بوجھ پڑے گا اور حکومتی پالیسیوں کا بہتر نفاذ ہو سکے گا۔
لیکن کمیشن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے لیے آئین کی پانچ دفعات میں ترامیم کرنا ہوں گی۔
’ون نیشن ون الیکشن‘ کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے جہاں انتخابی اخراجات میں کمی ہوگی وہیں انتظامیہ کی اہلیت میں اضافہ ہو گا اور زیادہ سے زیادہ ووٹر ووٹ دینے آئیں گے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی پالیسیوں اور پروگراموں میں مطابقت پیدا ہوگی اور جب ایک بار انتخابات کے اعلان کے بعد ضابطۂ اخلاق نافذ ہو جائے گا تو کوئی بھی ریاست انتخابات کی تکمیل تک کسی پراجیکٹ یا اسکیم کا اعلان نہیں کر سکے گی۔
لیکن اس کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسمبلیوں کی مدتِ کار کو پارلیمانی مدتِ کار سے ہم آہنگ کرنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ اس کے علاوہ اس میں وسط مدتی انتخاب یا کسی ریاست میں صدر راج کے نفاذ کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے جمعرات کو 18 سے 22 ستمبر تک پارلیمان کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اجلاس کے ایجنڈے کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت اجلاس کے دوران ون نیشن ون الیکشن کے سلسلے میں کوئی بل پیش کر سکتی ہے۔