رسائی کے لنکس

برطانوی پولیس کے چہرہ شناس افسر جو آرٹیفیشل انٹیلی جینس کو ٹکر دے رہے ہیں


آج کل آرٹیفیشل انٹیلی جینس (اے آئی) اور چہرہ شناخت کرنے والے نت نئے سافٹ ویئرز کا دور ہے، لیکن برطانوی پولیس کے پاس کچھ ایسے ماہر پولیس افسر ہیں جو ایک بار کسی کو دیکھ لیں تو پھر نہیں بھولتے۔

جی ہاں اس جدید دور میں بھی برطانوی پولیس شناخت کے نت نئے طریقوں کے باوجود روایتی طریقے اپنا رہی ہے اور اس کے لیے اس کے پاس ماہرین کی ایک ٹیم ہے جنہیں 'سپر ریکگنائزرز' کا نام دیا گیا ہے۔

برطانیہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے ماہرین سے استفادہ کر رہے ہیں جو غیر معمولی یادداشت اور دیگر افراد کے مقابلے میں چہروں کو شناخت کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

تھیمز ویلی پولیس میں سرویلنس ایکسپرٹ ٹینا والس کہتی ہیں کہ صرف ایک فی صد لوگ اس 'سپر پاور' کے حامل ہوتے ہیں۔

والس نے ایسے پولیس افسران کو 2017 میں شامل کرنا شروع کیا اور اب ان کی ٹیم میں ایلکس تھوربرن جیسے 20 ماہر شامل ہیں۔ ایلکس گزشتہ 17 برس سے پولیس سروس میں ہیں۔

تھوربرن نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ "میں چہرے پہچاننے کے معاملے میں ہمیشہ سے ہی اچھی رہی ہوں، لہٰذا جب اُنہوں نے ٹیسٹ کے لیے بلایا تو میں فوراً چلی آئی۔"

آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے ہماری زندگی کیسے بدلنے والی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00

اُن کا کہنا تھا کہ "مجھے 10 سے 30 برس کی عمر کے دس لوگوں کی تصاویر دی گئیں جنہیں مجھے بھیڑ میں شاپنگ سینٹر میں تلاش کرنا تھا۔"

تھوربرن کے بقول اُنہوں نے ان تمام افراد کو ڈھونڈ لیا۔ لیکن یہ سب لوگ حقیقت میں تصاویر سے بہت مختلف تھے اور یہ بہت دلچسپ تھا۔

ان افسران کو سیکیورٹی کیمروں کی مدد سے لی جانے والی فوٹیجز دکھائی جاتی ہیں اور پھر انہیں فیلڈ میں بھی بھیجا جاتا ہے۔

برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم کی تاجپوشی کے لیے، تھوربرن کو لندن کے مغرب میں ونڈسر کیسل میں ہجوم میں بھیجا گیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس تقریب سے پہلے ہمیں بہت سی تصاویر دی گئی تھیں اور ٹاسک تھا کہ نظر رکھیں کہ یہ لوگ شاہی قافلے میں شامل نہ ہو پائیں اور کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہ بنیں۔ لیکن خوش قسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔

لندن میٹرو پولیٹن پولیس میں سب سے پہلے ان 'سپر ریکگنائزرز' سے استفادہ کرنے والے مائیک نیوائل کہتے ہیں کہ یہ جرائم اور نمٹنے کا سستا اور مؤثر طریقہ ہے۔

بڑی کامیابی

'سپر ریکگنائزرز' نے اس وقت پولیس کے لیے بہترین کام کیا جب 2011 میں لندن میں پولیس کی تحویل میں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔

شرپسندوں کی شناخت کے لیے پولیس کے سامنے دو لاکھ گھنٹوں کی سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج تھی۔

یونیورسٹی آف گرین وچ میں اپلائیڈ سائیکولوجی کے پروفیسر جوش ڈیوس کہتے ہیں کہ ان فوٹیج میں سے 20 افسران نے 600 شرپسندوں کو شناخت کیا۔

نیوائل کے بقول آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور چہروں کی شناخت کے لیے جدید سافٹ ویئرز کے باوجود انسانوں کو حاصل مہارت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ جدید نظام کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے، بلکہ دونوں طریقوں کو ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG