پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے ایک درجن سے زائد بل واپس بھجوانے کے بعد کئی اہم قانون التوا کا شکار ہو گئے ہیں۔
ان بلز کے واپس جانے سے سابق حکومت کی قانون سازی اب تعطل کا شکار ہے۔ واپس بھجوائے گئے بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل منظور ہو چکے تھے تاہم اب ان کا فیصلہ عام انتخابات کے بعد ہو گا جب نئی قومی اسمبلی تشکیل ہو گی۔
واپس کیے گئے بلوں میں ضابطہ فوج داری کا ترمیمی بل بھی شامل ہے جس کے تحت پولیس کو بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیار دیا گیا ہے۔
واپس بھیجے جانے والے بلوں کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اعلان اب تک نہیں کیا گیا۔
کون کون سے بل واپس ہوئے؟
صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہونے والے 13 بلز کو واپس بھجوایا ہے جن میں سے کچھ نئی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے قیام کے حوالے سے بھی تھے۔
واپس ہونے والے بلز میں پریس، اخبارات، نیوز ایجنسیز اور کتب کی رجسٹریشن ترمیمی بل بھی شامل تھا جو کہ لفظ ’وفاقی حکومت‘ کو ’وزیرِ اعظم‘ سے تبدیل کرنے کے حوالے سے ہے۔
اس میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کا بل بھی شامل ہے جو کہ صحافیوں کے تحفظ کا معاملہ وزارت انسانی حقوق سے وزارت اطلاعات کو منتقل کرنے کے حوالے سے ہے۔
نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ (ترمیمی) بل بھی اس میں شامل ہے جو کہ اس کمیشن کی ذمے داریوں کی ازسر نو وضاحت اور کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اس کے انتظامی ڈھانچے میں کچھ ترامیم کے لیے تھا۔
صدر علوی نے امپورٹس اینڈ ایکسپورٹ (کنٹرول) (ترمیمی) بل 2023 کو بھی واپس بھجوایا ہے جو کہ اس شعبے میں چند مشکل معاملات کو حل کرنے کے حوالے سے ہے۔
ان معاملات کی نشان دہی تاجر برادری اور دیگر حلقوں کی جانب سے درآمد و برآمد سے متعلق پابندیوں میں جُز وقتی نرمی کے لیے کی گئی تھی۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کا بل بھی صدر عارف علوی نے واپس بھجوا دیا ہے۔ واپس بھجوائے گئے دیگر بلوں میں پبلک سیکٹر کمیشن ترمیمی بل، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز بل، ہورائزن یونیورسٹی بل، فیڈرل اردو یونیورسٹی ترمیمی بل، این ایف سی انسٹی ٹیوٹ، ملتان ترمیمی بل اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنالوجی بل شامل ہیں۔
'بل ناپسندیدہ ہو سکتے ہیں لیکن غیر قانونی نہیں ہیں'
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر کی طرف سے بل بھجوانے کا مطلب ہے کہ وہ اس کے مواد سے مطمئن نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر بل کے کسی حصے سے اتفاق نہیں تھا تو انہیں چاہیے تھا کہ ہر بل کے بارے میں وہ وجوہات بھی بتائیں۔
اُن کے بقول سابق حکومت اور سابق اسمبلی نے نہایت عجلت میں یہ بل پاس کیے ہیں لیکن یہ ناپسندیدہ عمل تو ہو سکتا ہے لیکن یہ خلاف قانون نہیں ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اگر اسمبلی چاہے تو اس کو جلد سے جلد پاس کرا سکتی ہے۔ بہتر ہوتا کہ صدر ان میں موجود غلطیوں کی نشان دہی کرتے تاکہ عوام کو بھی اس بارے میں آگاہی حاصل ہوتی۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ صدر کی طرف سے واپس بھجوانے کی وجہ سے اب یہ بل آئندہ اسمبلی تک مؤخر ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آئندہ انتخاب کے بعد جو اسمبلی آئے گی وہی ان کا جائزہ دوبارہ لے گی۔
اُن کے بقول اگر ان بلز کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروایا جاتا اور پھر صدر کے پاس آتے تو صدر کے دستخط نہ کرنے کے باوجود بھی یہ قانون بن سکتے تھے۔
لیکن دونوں ایوانوں میں الگ الگ پاس ہونے کے بعد انہیں صدر مملکت کو بھجوایا گیا جنہوں نے انہیں قومی اسمبلی کو واپس بھجوا دیا ہے اور اب آئندہ اسمبلی ہی اس قانون سازی کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
سینئر صحافی عامر وسیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان بلز کی واپسی پر ابھی سرکاری طور پر کوئی آگاہی نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان نے عجلت میں بل پاس کیے لیکن صدر نے بھی بعض بلز کو شاید بغیر پڑھے ہی واپس کردیا ہے۔ کیوں کہ ان میں سے بعض بل ایسے بھی ہیں جو کسی طرح بھی متنازعہ نہیں تھے۔
عامر وسیم نے کہا کہ ان بلز کے واپس ہونے سے متعلق صورتِ حال پہلی بار سامنے آئی ہے کیوں کہ ماضی میں جب بھی کوئی بل واپس آتا تھا تو اسے مشترکہ اجلاس میں پاس کرا لیا جاتا تھا۔
اُن کے بقول ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس شدہ بل واپس بھجوائے گئے ہیں۔
عامر وسیم کے مطابق اگر بل صرف اسمبلی سے پاس ہو اور سینیٹ سے پاس نہ ہو تو وہ ازخود ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب پاس ہونے کے باوجود انہیں صدر نے واپس بھجوایا ہے تو بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اب آئندہ اسمبلی ہی ان کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔
اُن کے بقول واپس کیے گئے بل ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں بن سکے، ان کو ایکٹ آف پارلیمنٹ بنانے کے لیے مشترکہ اجلاس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
یونیورسٹیوں کے بلز پاس کیوں نہ ہو سکے؟
عامر وسیم نے کہا کہ ان میں بعض یونیورسٹیوں کے حوالے سے بھی بلز شامل تھے لیکن ان میں ایک وفاقی اردو یونیورسٹی کا بل تھا جس میں صرف ایک ترمیم کی گئی تھی۔ لیکن صدر نے اسے واپس کر دیا۔
اُن کے بقول جب تک صدر صاحب کی طرف سے اعتراضات سامنے نہیں آتے اس وقت تک کچھ کہنا مشکل ہے۔
عامر وسیم کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں کے بل پاس ہونے کے حوالے سے اسپیکر اسمبلی نے بھی کہا تھا کہ ہم دھڑا دھڑ بل پاس کر رہے ہیں۔
وزیر تعلیم بھی خود مطمئن نہیں تھے لیکن انہیں پاس کر دیا گیا۔ ان یونیورسٹیوں کے پاس ہونے میں کچھ کاروباری معاملات بھی شامل لگ رہے تھے کیوں کہ اگر کسی یونیورسٹی کا چارٹر منظور کر لیا جاتا ہے تو اسے بعد میں کروڑوں روپے میں مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے۔
اُن کے بقول یہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ ایک رکن اسمبلی نے اپنے حلقے کے علاوہ بھی چار چار یونیورسٹیوں کے چارٹر منظور کروائے ہیں۔ ان بلوں کی منظوری میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ انہیں کسی بحث کے بغیر منظور کروایا گیا۔
عامر وسیم کا کہنا تھا کہ واپس کیے گئے بلز کی فہرست کے مطابق بعض ایسے بل بھی واپس کیے گئے جو بالکل غیر متنازع تھے۔
لیکن آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور دیگر اس قسم کے بلز صدر پاکستان نے کسی اعتراض کے بغیر منظور کر دیے ہیں۔
ایک بل میں سپریم کورٹ کے حکم مطابق وزیرِاعظم کے نام کی جگہ وفاقی حکومت لکھا گیاتھا۔ لیکن صدر نے اس بل کو بھی واپس بھجوا دیا، لگ یوں رہا ہے کہ آخری دن انہوں نے تمام بل واپس کر دیے ہیں اور واپس بھیجنے سے پہلے ان کو پڑھا بھی نہیں گیا۔