حکومتِ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر مقامی سطح پر بننے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کو گزشتہ برس جولائی میں بھی ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں سات سے 10 فی صد تک اضافے کی اجازت دی تھی۔
اس سے قبل 2018 میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ملک بھر میں ادویات کی قیمتوں میں 15 فی صد تک اضافہ کیا تھا۔
ایک جانب جہاں ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہیں دوا ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ خام مال کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے وہ کم قیمت پر دوائیں نہیں بنا سکتے۔
پاکستان میں غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کی نمائندہ تنطیم فارمابیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ ٹمی حق کا کہنا ہے کہ جن دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، وہ ہارڈ شپ کیس میں آتی ہیں۔ اُن کے بقول یہ ایسی ادویات ہیں جن کی قیمتیں بہت کم ہیں اور اِن کے خام مال کی قیمتوں میں اضافے کے باعث دوا ساز کمپنیاں اب انہیں تیار نہیں کر سکتے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ صرف اُن ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دی گئی ہے جن کی مارکیٹ میں قلت ہے۔ مقامی ادویہ ساز اداروں نے کم قیمتوں پر فروخت کے نقصان کی وجہ سے ادویات کی پیداوار روک دی ہے۔
SEE ALSO: پنجاب میں کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی بندوزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ادویات میں سے زیادہ تر کی قیمتیں ایک عشرے سے نہیں بڑھائی گئی تھیں جس کی وجہ سے 94 مینوفیکچررز نے اُنہیں بنانا چھوڑ دیا تھا اور مارکیٹ میں اُن کی قلت ہو گئی تھی۔
اُن کے بقول جب یہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتیں تو مریض غیر ملکی مگر مہنگی اور اسمگل شدہ ادویات خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ حکومت طاقت کے ذریعے ادویات کی مارکیٹ میں دستیابی یقینی نہیں بنا سکتی کیوں کہ قیمتوں میں کمی کے لیے دباؤ ڈالا جائے تو ادویات بنانے والے پیداوار روکنے کے متعدد طریقے اپنا لیتے ہیں۔
عائشہ حق کہتی ہیں کہ پڑوسی ملک بھارت میں ادویہ سازی میں بہت زیادہ تحقیق ہو رہی ہے، جب کہ پاکستان میں یہ تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ادارہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ساری دوائیاں باہر سے آتی ہیں۔ جب کہ مقامی کمپنیاں اُن ادویات کے 'جنیرک' بناتی ہیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ جنیرک بنائیں لیکن وہ معیاری ہونی چاہیے۔
مقامی دوا ساز کمپنیوں کا مؤقف
پاکستان کی مقامی کمپنیاں بھی دوائیوں کی قیمتیں مقرر کرنے کی پالیسی کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں اور کاروباری خسارے کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔
مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے چیئرمین اور ایک مقامی دوا ساز کمپنی 'شاذوذکا' کے چیف ایگزیکٹو میاں محمد ذکا الرحمٰن کہتے ہیں کہ پاکستان میں بننے والی ادویات کا تقریباً سارا خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے جس کی لاگت ڈالر کی قدر سے جڑی ہوئی ہے۔
اُن کے بقول پاکستان میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ایک بڑا سبب ہے جس کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ملکی کمپنیوں کے کاروبار پر بھی اثر پڑا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوائیوں کی قیمتوں سے متعلق 2018 میں بننے والی پالیسی کے مطابق اگر کسی دوائی کی قیمت بڑھانا مقصود ہو تو اُسے ہارڈ شپ کیس کہا جاتا ہے جس کے لیے ایک پرائسنگ بورڈ موجود ہے جو قیمتوں کا جائزہ لیتا ہے جس کے بعد اسے پالیسی بورڈ میں بھیجا جاتا ہے۔ پھر کابینہ اُس کا فیصلہ کرتی ہے۔
وفاقی حکومت کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے چیئرمین پی پی ایم اے نے بتایا کہ دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کا کیس 2019 سے رُکا ہوا تھا۔ یہ تمام ضروری ادویات ہیں جن کی قیمتیں بڑھ گئیں تھیں اور اَب یہ بازار میں دستیاب نہیں تھیں۔
میاں ذکا الرحمٰن کا کہنا تھا "ہم حکومت کو گزشتہ ایک سال سے کہہ رہے ہیں کہ سستی دوائیوں کی قیمتوں میں جو جائز اضافہ ہے اُس کی اجازت دی جائے تا کہ عوام مہنگی اور غیر ملکی ادویات خریدنے پر مجبور نہ ہوں۔"
اُن کے بقول اگر ایک دوائی دو روپے میں بنتی ہے اور اُس کے خام مال کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو وہ حکومت کو بتا سکتے ہیں کہ یہ دوائی اب تین روپے میں بنے گی۔
میاں محمد ذکا الرحمٰن نے کہا کہ کئی سال تک ادویات کی قیمتیں منجمد رکھنے اور قیمتوں کی پالیسی متعارف کرانے کے بعد اس پر عمل درآمد نہ ہونے سے دوا ساز کمپنیاں کس طرح کاروبار چلا سکتی ہیں؟
پاکستان میں دوا ساز کمپنیوں کی تعداد
محکمہ صحت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اِس وقت مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کی تعداد 775 ہے، جب کہ 24 غیر ملکی کمپنیاں بھی مصروف عمل ہیں۔
پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی تعداد گزشتہ 15 برسوں میں 46 سے گھٹ کر 24 ہو گئی ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق ان غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کا دوا سازی کی صنعت میں پیداوار کا حصہ 45 فی صد بنتا ہے۔
مقامی ادویہ ساز کمپنیوں میں سے 100 کمپنیاں مقامی کمپنیوں کی پیداوار کا تقریباً 97 فی صد پیدا کرتی ہیں جب کہ باقی چھ سے 50 کمپنیوں کا اس پیداوار میں حصہ صرف تین فی صد ہے۔
پاکستان کن ممالک کو ادویات فراہم کرتا ہے
پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ذکا اللہ کے مطابق پاکستان کی مارکیٹ تین ارب ڈالر کی ہے جس کا 99 فی صد مقامی ادویہ ساز کمپنیاں پورا کرتی ہیں۔
اُن کے بقول پاکستان دنیا کے 40 ملکوں کو 300 ملین امریکی ڈالر سالانہ کی ادویات برآمد کرتا ہے۔ مقامی سطح پر تیار کردہ کرونا وائرس کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا 'ریمڈیسیور' افریقہ، ساؤتھ ایسٹ ایشیا اور وسطی ایشیا میں برآمد کی جا رہی ہے۔
ذکا اللہ کہتے ہیں کہ ادویہ سازی کا زیادہ تر خام مال بیرونِ ملک سے آتا ہے جس کی ادائیگی ڈالر میں کی جاتی ہے۔ ڈالر کی قیمت پہلے 100 سے 150 روپے تھی جو اَب 170 روپے کے قریب پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو بہت سی ادویات کی قلت کا اندییشہ تھا۔
کرونا وائرس کی دوا کی قیمت
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے عالمی وبا کووِڈ 19 کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے 'ریمڈیسیور' کے 100 ملی گرام انجیکشن کی قیمت 10 ہزار 784 روپے سے گھٹا کر آٹھ ہزار 244 روپے کر دی ہے۔
پاکستان میں امریکی حکومت کی اجازت سے کرونا وائرس کے لیے انجیکشن بنانے والی کمپنی بائیو فیروز سنز کے ایک اعلٰی عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وفاقی حکومت کے فیصلے کے بعد اُن کی کمپنی نے ابھی اِس پر غور نہیں کیا ہے۔
عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت جب کسی بھی دوائی کی قیمت کم کرتی ہے تو ہماری کمپنی اُس کی قیمت گھٹانے کی پابند ہے۔ ایسے میں اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ تیاری کے کس مرحلے میں قیمت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ کمپنی کے ذمے دار ہی اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کس طرح ادویات کی قیمت میں کمی کی جائے۔
سینٹرل ریسرچ فنڈ
محکمہ صحت کے مطابق حکومتِ پاکستان کے شعبہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس ایک ریسرچ فنڈ ہوتا ہے۔ اِس فنڈ میں دوا ساز کمپنیاں اپنے منافع کا ایک فی صد بطور تحقیق دیتی ہیں۔ اِس فنڈ کے تحت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ملک بھر میں ادویات پر تحقیق اور لیبارٹریز بنانے کی پابند ہوتی ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق برسوں سے اِس فنڈ کا مناسب استعمال نہیں کیا گیا ہے۔