پاکستان میں پولیو وائرس ختم کیوں نہیں ہوتا؟

پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں اب بھی وائلڈ پولیو وائرس موجود ہے۔

پاکستان میں گزشتہ ہفتے لگ بھگ 15 ماہ بعد پولیو وائرس کے ایک نئے کیس کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد یہ سوال ایک مرتبہ پھر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے کہ آخر پاکستان میں پولیو ختم کیوں نہیں ہوتا؟

ملک میں 27 جنوری 2022 کو وہ تاریخی دن تھا جب طویل جدوجہد کے بعد پہلی مرتبہ 12 ماہ کے دوران وائلڈ پولیو وائرس کا ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔ اس سے قبل گزشتہ برس اسی تاریخ کو بلوچستان کے شہر قلعہ عبداللہ میں ایک بچے میں وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

ایک سال پر محیط عرصے کے دوران کوئی کیس سامنے نہ آنے پر پولیو فری پاکستان کا خواب پورا ہونے کی امید بھر آئی تھی مگر یہ خواب 22 اپریل بروز جمعہ اس وقت ٹوٹ گیا جب محکمۂ صحت کی جانب سے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک بچے میں پولیو کی تصدیق کی گئی۔

پولیو کا نیا کیس سامنے آنے کے فوری بعد ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے انسداد پولیو مہم کے لیے تمام وسائل کو ہنگامی بنیادوں پربروئے کار لانے کی تلقین کرتے ہوئے ملک میں اس موذی مرض کے مکمل خاتمے پر زور دیا۔

وزیراعظم نے بچوں کی ویکسی نیشن یقینی بناتے ہوئےہدایت کی کہ انسداد پولیو مہم کے دوران خیبرپختونخوا کے اضلاع بشمول شمالی و جنوبی وزیرستان اور بنوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔

حکام کے مطابق ملک میں یہ نیا کیس 15 ماہ جب کہ خیبرپختونخوا میں 21 ماہ بعد سامنے آیا ہےجس کے بعد علاقے میں دیگر بچوں کے حوالے سے بھی تشویش بڑھ گئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایمرجنسی آپریشن سینٹرز( ای او سی) زمین خان نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی سے تعلق رکھنے والے بچے کو سات بار پولیو سے بچاو کی ویکسین کے قطرے پلائے گئے تھے۔

البتہ اس معاملے میں اب تفصیلی رپورٹ کا انتظار ہے جس میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ وہ کون سے عوامل تھے کہ سات بار قطرے پلائے جانے کے باوجود بچہ اس مہلک بیماری کا نشانہ بنا۔

ان کے بقول تفصیلی رپورٹ کے لیے دو سے چار ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔تاہم فوری طور پر متاثرہ علاقے اور اطراف میں یکے بعد دیگرے پولیو مہم چلائی جائے گی تاکہ وائرس کے اثر کو زائل کیا جا سکے۔

دوسری جانب نیا کیس سامنے آنے کے بعدعوامی سطح پر پولیو حکام کو مبینہ غفلت پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیکیورٹی صورتِ حال کے باعث یہاں پولیو ورکرز اپنی ڈیوٹی سے کتراتے ہیں۔

تاہم حکام ایسی تمام خبروں کی نفی کرتے ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر زمین خان کے مطابق وزیرستان کے علاقے میں سیکیورٹی کے مسائل نہیں ہیں۔پولیو ٹیمز مہم کے علاوہ بھی گھر گھر جا کر بچوں کو روٹین کی ویکسی نیشن کرتی ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں پولیو مہم کے دوران ورکرز پر حملوں کے واقعات بھی ہوچکے ہیں۔گزشتہ سال فروری کے مہینے میں شدت پسندوں کی فائرنگ سے چار خواتین ہلاک ہوگئی تھیں۔ چاروں خواتین کا تعلق ایک غیر سرکاری تنظیم سے تھا جس کے بعد خوف و ہراس کے باعث علاقے میں غیر سرکاری تنظیموں کے تمام امور محدود ہو گئے تھے۔

حکام کے مطابق پولیو ٹیمز پر حملوں کے نتیجے میں سال 2012 سے اب تک 90 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں ورکرز کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی پر مامور اہل کار اور عام شہری بھی شامل ہیں۔

'پشتون علاقوں میں رہائش پذیر افراد ویکسین کی قدر اور اہمیت سے واقف نہیں'

ڈپٹی ڈائریکٹر زمین خان نے واضح کیا کہ گزشتہ سال نومبر ، دسمبر میں جاری ہونے سروے میں صوبۂ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ماحولیاتی سیمپل مثبت ہونے کی رپورٹ دی گئی تھی اور رواں برس پانچ اپریل کو بھی محکمۂ صحت کے حکام نے بنوں میں ماحولیاتی سیمپل مثبت ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ پولیو ورکرز وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں ۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ہو گیا ہے؟

زمین خان نے کہا کہ پاکستان میں پولیو کا خاتمہ نہ ہونے کی ایک وجہ لاعلمی ہے۔ ان کے بقول پشتون علاقوں میں رہائش پذیر افراد ویکسین کی قدر اور اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔ انہیں یہ بات مان لینی چاہیے کہ پولیو مہم ان کے اپنے بچوں کی زندگیوں کے لیے بہت اہم ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں وائلڈ پولیو وائرس پایا جاتا ہے۔

پاکستان میں پولیو کا مکمل طور پر خاتمہ نہ ہونے کی ایک وجہ افغانستان کے ساتھ سرحد کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کےبرسراقتدار آنے کے بعد بڑی تعداد میں افغان باشندوں نے پاکستان کا رخ کیا۔

تاہم حکام کے مطابق تمام داخلی راستوں پر پولیو ٹیمز متحرک ہیں اور افغانستان سے پولیو وائرس کی منتقلی کی خبریں بے بنیاد ہیں۔

زمین خان کے مطابق انہیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جب عمرے یا حج کی ادائیگی کےلیے جانے والے شہریوں کو ایئرپورٹ پر پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔اور وہ لوگ دنیا کے دیگر شہریوں کے برعکس اپنا پولیو سرٹیفکیٹ دکھا رہے ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں اس سے منفی تاثر پھیلتا ہے کہ جیسے یہی لوگ اصل میں دنیا بھر میں بیماریاں پھیلانے کے موجب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وطن سے محبت اور پیار کا واحد حل اپنے بچوں کو بروقت پولیو کے دو قطرے پلانا ہے۔