غزہ کی پٹی کے علاقے میں اب تک اسرائیل سمندر سے سیکڑوں میزائل داغ چکا ہے جب کہ اس علاقے کو کنٹرول کرنے والی فلسطینی مزاحمتی تنظیم ’حماس‘ نے بھی اسرائیل پر سیکڑوں راکٹ فائر کیے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک ہفتے سے جاری لڑائی میں شدت آتی جارہی ہے اور ماضی کی طرح اس بار بھی غزہ کی پٹی ان کا مرکز ہے۔
سن 2008کے بعد سے اسرائیل اور حماس کے درمیان کشیدگی کا یہ چوتھا دور ہے۔
گزشتہ دنوں شروع ہونے والی کشیدگی اب باقاعدہ جنگی جھڑپوں کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور گنجان آباد غزہ کی پٹی ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر توجہ کا مرکز ہے۔
اس حوالے سے مشرقِ وسطیٰ میں گزشتہ صدی سے جاری اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے حوالے سے غزہ کے علاقے کی اہمیت جاننا بھی اہم ہے۔
غزہ کی پٹی کیسے بنی؟
اسرائیل اور مصر کے درمیان غزہ کا 40 کلو میٹر طویل اور 10 کلو میٹر چوڑائی رکھنے والا یہ علاقہ غزہ اسٹرپ یا ’غزہ کی پٹی‘ بھی کہلاتا ہے۔ سن 1948 کی جنگ اور اردگرد کے علاقوں میں اسرائیل کے قیام سے قبل یہ علاقہ برطانیہ کے ’فلسطین مینڈیٹ‘ کا حصہ تھا۔
خیال رہے کہ پہلی عالمی جنگ تک فلسطین کا علاقہ سلطنتِ عثمانیہ میں شامل تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1922 میں اس وقت کی عالمی تنازعات حل کرنے کے لیے قائم کی گئی عالمی تنظیم لیگ آف نیشنز نے فلسطین کو برطانوی انتظامیہ کے حوالے کردیا تھا، جسے ’فلسطین مینڈیٹ‘ کہا جاتا ہے۔ غزہ بھی اس میں شامل تھا۔
بعدازاں 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس مینڈیٹ کے اختتام سے قبل ہی فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے لیے الگ ریاست اسرائیل کے درمیان تقسیم کرنے کے منصوبے کی منظوری دی۔ اس منصوبے کے مطابق غزہ اور اس سے ملحقہ علاقے عربوں کو دیے گئے تھے۔
برطانوی مینڈیٹ 15 مئی 1948 کو ختم ہوا اور اسی دن جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ اس جنگ کی ابتدا ہی میں پڑوسی عرب ملک مصر کی افواج غزہ میں داخل ہوگئیں۔
تاہم 1948 کی شدید جنگ کے بعد اس علاقے میں عربوں کے ہاتھ سے بہت سے علاقے جانے کے بعد اس کی حدود سکڑ کر پٹی کی صورت میں رہ گئیں جسے غزہ کی پٹی کہا جاتا ہے۔
سن 1967 میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے علاقے بھی حاصل کرلیے۔ فلسطینی ان تینوں علاقوں کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی مجوزہ الگ ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اسرائیل کے قیام کے لیے ہونے والی جنگ کے دوران فلسطینیوں کی بڑی تعداد نے غزہ میں پناہ حاصل کی تھی۔ ان پناہ گزین خاندانوں کی آبادی بڑھ کر اب 14 لاکھ ہوگئی ہے جو کہ غزہ کی مجموعی آبادی کے نصف سے بھی زائد ہے۔
غزہ میں 1987 میں پہلی مزاحمتی تحریک اٹھی جسے ’انتفادہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسی برس حماس قائم ہوئی اور بعدازاں فلسطین کے ان علاقوں میں پھیل گئی، جو اسرائیل کے زیر کنٹرول ہیں۔۔ 1990 کی دہائی میں اوسلو امن معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی قائم ہوئی جسے غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں پر محدود اختیارات دیے گئے۔
غزہ میں اختیارات کی کھینچا تانی
سن 2005 میں دوسرے قدرے پُرتشدد 'انتفادہ' کے بعد اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں اور آباد کاری سے بھی دست بردار ہوگیا۔
اگلے برس فلسطینی اتھارٹی کے انتخابات میں حماس کو بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کی ’فتح پارٹی‘ اور حماس کے مابین اقتدار کی کھینچا تانی شروع ہوگئی۔ دونوں گروپوں کے درمیان 2007 میں تصادم ہوا جس کے بعد غزہ مکمل طور پر حماس کے کنٹرول میں آگیا۔
حماس نے غزہ میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے کچھ اقدامات کیے۔ تاہم، ناقدین کے بقول، اُنہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے برداشت کا مظاہرہ نہیں کیا اور سیاسی مخالفین کو گرفتار کیا اور حکومت مخالف احتجاج کے ساتھ سختی سے نمٹا گیا۔
گزشتہ برسوں میں ہونے والی تین جنگوں اور 14 برس سے جاری بندش کے باوجود حماس تاحال اس علاقے میں مضبوط ہے۔
'کھلا قید خانہ'
سن 2007 میں حماس کو انتخابی کامیابی حاصل ہونے کے بعد اسرائیل اور مصر نے غزہ پر مختلف پابندیاں عائد کردیں جن میں بجلی کی فراہمی میں کمی اور درآمدات پر کڑی پابندیوں کے علاوہ زمینی و فضائی سرحدیں بند کرنے کے اقدامات کیے گئے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں اور بندشوں کا مقصد حماس کو ہتھیار درآمد کرنے سے روکنا ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کے گروپ اسے 'اجتماعی سزا' قرار دیتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی کی وجہ سے غزہ کی معیشت بری طرح تباہ ہوچکی ہے۔ یہاں بے روزگاری کی شرح 50 فی صد ہے۔ بجلی کی بندش معمول ہے اور روز مرہ استعمال کا پانی بھی آلودہ ہونے کی شکایات عام ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس علاقے میں رہنے والے فسلطینیوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد ہیں اور انہیں کام کاج، تعلیم یا اہل خانہ سے ملنے کے لیے آنے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے غزہ کو دنیا کا سب سے بڑا کھلا قید خانہ بھی کہا جاتا ہے۔
غزہ پر 2007 میں عائد ہونے والی پابندیوں کے خاتمے کے لیے احتجاج اور مظاہروں کے علاوہ سفارتی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں۔
تاہم، رواں ماہ اسرائیل کی جانب سے ایک بار پھر فلسطینیوں کی بے دخلی کی کارروائیاں شروع ہوئیں تو اسرائیلی پولیس اور فلسطینی مظاہرین کے مابین کشیدگی بڑھی جس کے بعد حماس نے غزہ سے حملوں کا آغاز کیا۔
جنگوں اور کشیدگی کا ماضی
حماس اور اسرائیل کے درمیان تین جنگیں اور متعدد جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ حالیہ کشیدگی سے قبل 2014 میں بدترین جنگ ہوئی جو 50 دن تک جاری رہی اور اس میں تقریباً 2200فلسطینی ہلاک ہوئے۔ ان میں نصف سے زائد سویلین تھے۔ دوسری جانب اسرائیل میں 73 افراد ہلاک ہوئے۔
جنگ کے دوران اسرائیل کے فضائی حملوں سے غزہ کا ایک بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا اور ہزاروں افراد کو اقوام متحدہ کے شلیٹرز اور اسکولوں سمیت دیگر مقامات پر پناہ لینا پڑی۔
اسرائیل نے اس حوالے سے مؤقف اختیار کیا کہ اس نے سویلین ہلاکتوں سے گریز کی ہر ممکن کوشش کی۔ تاہم، الزام عائد کیا کہ حماس غزہ کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
SEE ALSO: حماس کے راکٹوں کا 'توڑ' اسرائیل کا 'آئرن ڈوم' میزائل شکن نظام کیا ہے؟فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے اسرائیل میں ہزاروں راکٹ داغے گئے۔ ان میں سے اکثریت کو اسرائیلی کے دفاعی نظام نے ناکارہ بنا دیا۔ تاہم، ان حملوں کے باعث اسرائیلی علاقوں میں خوف و ہراس پھیلا اور معمولاتِ زندگی معطل ہوگئے۔
راکٹوں کی رینج میں اضافہ
حالیہ برسوں کے دوران حماس کی جانب سے داغے جانے والے راکٹوں کے فاصلے یا رینج میں اضافہ ہوا ہے اور اب ان میں سے بعض تل ابیب اور یروشلم تک جیسے اہم شہری علاقوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔
رواں برس کے آغاز میں عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
اس حوالے سے توقع کی جارہی ہے کہ تحقیقات کے نتیجے میں 2014 کی جنگ کے دوران اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی جانچ پڑتال ممکن ہوسکے گی۔
بین الاقوامی عدالت کی جانب سے اسرائیل اور فلسطنیوں کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔