|
کراچی -- پاکستان میں مجوزہ آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت، آئین میں دیگر تبدیلیوں کے ساتھ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
اگرچہ حکومت کے پاس مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال لگتا ہے کہ آئینی ترمیم پارلیمان میں پیش نہیں کی جائیں گی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ججز کی تعیناتی کے طریقۂ کار میں آخر کیا خامیاں یا کمی ہے جس کی بناء پر حکومت تقریبا 14 سال بعد اس میں تبدیلی لانا چاہتی ہے؟
مبصرین نہ صرف اس جوڈیشل پیکج کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھاتے نظر آرہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے حکومت کی نیت کے بارے میں بھی متجسس دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن حکومت کی جانب سے اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ مروجہ نظام تقرری کے عمل میں پارلیمان کا اثر و رسوخ کم ہے اور اس حوالے سے کام کرنے والی پارلیمانی کمیٹی ججوں کی تقرری کے عمل میں محض ربر اسٹمپ کے طور پر کام کر رہی ہے۔
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی اتحادی جماعت، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے الزام لگایا کہ ججوں کی تقرری کے لیے 2010 کے اواخر میں منظور کی گئی 19 ویں ترمیم عدلیہ کے دباؤ پر لائی گئی تھی اور اب اس پر نظرِ ثانی کا وقت آ گیا ہے۔
لیکن دوسری جانب کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اعلیٰ عدالتوں خصوصاً اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے خود کو مشکلات میں محسوس کر رہی ہے۔ اس لیے اس نے اس سلسلے میں بالادستی حاصل کرنے کے لیے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار ہی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس مسئلے کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت ملک میں ججوں کی تقرری کا کیا طریقۂ کار ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس وقت ججز کی تقرری کا کیا طریقۂ کار ہے؟
اس وقت آئین میں دیے گئے مروجہ طریقۂ کار کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں میں سے ہر ایک کا تقرر صدر مملکت آئین کے آرٹیکل 175 اے کے مطابق کرتے ہیں۔
یہ شق 19 ویں آئینی ترامیم کے ذریعے آئین میں شامل کی گئی تھیں۔ اس آئینی ترمیم نے سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری کے لیے ایک نئی اسکیم وضع کی ہے۔
اس آئینی ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور پارلیمانی کمیٹی کا قیام عمل لایا گیا۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان چیف جسٹس آف پاکستان پر مشتمل ہوتا ہے جو بطور چیئرمین کام کرتا ہے۔
سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز اور ایک سابق چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کا ایک جج بھی کمیشن کا ممبر ہوتا ہے جسے چیئرمین دو سال کی مدت کے لیے چار رکن ججوں کی مشاورت سے نامزد کرتا ہے۔
جوڈیشل کمیشن میں حکومت کی نمائندگی اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیر قانون کی جانب سے ہوتی ہے جب کہ پاکستان بار کونسل کی طرف سے نامزد کردہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک سینئر وکیل بھی کمیشن کا رکن ہوتا ہے۔
اسی طرح ججوں کی تقرری سے متعلق ایک پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جو آٹھ ارکان پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ حکومتی اور اپوزیشن بینچز کے ساتھ ساتھ دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مساوی رکنیت پر مبنی ہوتی ہے۔
حکومتی بینچوں سے ارکان کی نامزدگی قائدِ ایوان اور اپوزیشن بینچوں سے قائدِ حزبِ اختلاف کرتا ہے۔ اگر قومی اسمبلی تحلیل ہو تو پارلیمانی کمیٹی سینیٹ ارکان پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان پیشہ ورانہ اہلیت اور سابقہ واقعات کا جائزہ لینے کے بعد اکثریت سے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تقرری کے لیے ایک نام تجویز کرتا ہے۔
جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پارلیمانی کمیٹی کو بھیجی جاتی ہیں۔ کمیشن کی جانب سے نامزدگی کی وصولی کے بعد کمیٹی 14 روز کے اندر اپنی کُل رکنیت کی اکثریت سے نامزدگی کی تصدیق کر سکتی ہے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں نامزدگی کی تصدیق تصور کی جائے گی۔
تاہم دوسری صورت میں پارلیمانی کمیٹی مذکورہ مدت کے اندر تین چوتھائی اکثریت سے ریکارڈ کی جانے والی وجوہات کی بناء پر نامزدگی پر اعتراض اٹھا سکتی ہے اور اسے وزیر اعظم کے ذریعے کمیشن کو بھیج سکتی ہے۔
ایسی صورت میں کمیشن ایک اور نامزدگی بھیجے گا۔ کمیٹی، کمیشن کی جانب سے بھیجے گئے نام منظوری کے بعد جج کی تقرری کے لیے صدرِ مملکت کو بھجوانے کی پابند ہوتی ہے اور اس کا نوٹی فکیشن صدر مملکت جاری کرتا ہے۔
'ججوں کے مروجہ طریقہ کار کا نظام موجودہ اتحادیوں ہی نے نافذ کیا تھا'
موجودہ صدر آصف علی زرداری ہی نے اپنے سابقہ دور صدارت میں یکم جنوری 2011 کو 19 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کیے تھے اور اسے آئین کا حصہ بنا دیا تھا۔
صدر مملکت کو باضابطہ منظوری کے لیے بھیجے جانے سے قبل سینیٹ نے ترمیمی بل کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا جب کہ قومی اسمبلی نے اسے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں کی مدد ہی سے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا تھا۔
اس بل کا مسودہ اس 26 رکنی پارلیمانی کمیٹی برائے آئینی اصلاحات ہی نے تیار کیا تھا جس نے آئین میں تاریخی 18 ویں ترمیم کی تھی۔ اس ترمیم کا مقصد عدلیہ اور ایگزیکٹو کے درمیان تصادم کے ممکنہ خطرے کو بے اثر کرنا بتایا گیا تھا۔
اب حکومت ججوں کی تقرری کے طریقۂ کار میں تبدیلی کیوں چاہتی ہے؟
تاہم اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اعلیٰ عدلیہ کی تقرری میں انتظامیہ کا زیادہ اثرو رسوخ اور کردار چاہتی ہے اور اس ترمیم کے ذریعے ہائی کورٹ کے جج کو ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں منتقل کرنے کی بھی شق شامل ہو گی۔
مجوزہ آئینی ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم پانچ سینئیر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کر سکیں گے۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیر کو اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی سمت چیف جسٹس نے نہیں بلکہ پارلیمان نے متعین کرنی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس آئینی ترامیم میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس کے نکات 2006 میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان لندن میں طے پانے والے میثاق جمہوریت (چارٹر آف ڈیموکریسی) ہی کا حصہ ہے۔
ادھر اسی معاملے پر ایوان میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا کہنا تھا کہ اس آئینی ترمیم کا مقصد 19 ویں آئینی ترمیم کو درست کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 25 کروڑ عوام کی نمائندہ پارلیمان کو اس طرح طاقت ور رکھیں گے جس طرح آئین کہتا ہے۔ ججز کی تقرری میں پارلیمان کا کردار ربر اسٹمپ کا نہیں ہونا چاہیے۔ جو حق پارلیمنٹ کا بنتا ہے وہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں ایسی کون سی شق ہے جو حکومتی مفادات کے لیے ہے؟
تجزیہ کاروں کی رائے کیا ہے؟
اگرچہ وفاقی وزرا کا اصرار ہے کہ مجوزہ جوڈیشل پیکج عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے اور اس سے پارلیمنٹ اپنا زیادہ تعمیری کردار ادا کر سکے گی۔ لیکن مختلف تجزیہ کاروں نے اس اقدام پر شدید اعتراض کیا ہے۔
مبصر اور پیشے کے اعتبار سے وکیل عبدالمعیز جعفری نے مجوزہ قانون کو عدالتی آزادی کے لیے مکمل طور پر تباہ کن قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یقیناً ججوں کی تقرری میں پارلیمانی ان پٹ ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ انتظامیہ یعنی ایگزیکٹو کو چیف جسٹس کا انتخاب کرنا چاہیے۔
معیز جعفری نے مزید کہا کہ مختلف عدالتی ماہرین کی جانب سے پہلے ہی متعدد بار اس بارے میں معقول راستہ تجویز کیا جا چکا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ کی کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ تازہ ترین اصلاحات بھی شامل ہیں جو پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کے ساتھ ضم کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پارلیمان کے کردار کو محض ربر اسٹمپ تک محدود نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن عدلیہ کے سربراہ کا تعین کرنے یا عدلیہ پر مسلسل نگرانی کا انتظامی اثر و رسوخ نہیں ہو سکتا۔ ایسی کوششیں عدلیہ کو نقصان پہنچائیں گی۔
لیکن سابق صدر سپریم کورٹ بار یاسین آزاد اس حوالے سے الگ مؤقف رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کا اختیار پارلیمان کے پاس ہے اور اس کا یہ حق سب کو تسلیم کرنا ہو گا۔ جب کہ تمام عدلیہ کے ججز آئین کے تحت فیصلے دینے کے پابند ہیں۔
یاسین آزاد کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے بعض ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جن سے آئین دوبارہ تحریر کرنے کا تاثر سامنے آیا۔
اُن کے بقول اگر عدلیہ کی جانب سے ایسے فیصلے سامنے آنے لگیں حکومت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہ جاتا ہے۔ جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت پارلیمان کے پاس عدلیہ کے ججوں کی تقرری میں کوئی حقیقی اختیار نہیں۔
یاسین آزاد کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک جن مسائل کا شکار ہے اس میں تمام قوتوں اور اداروں کو اپنے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کی ضرورت ہے۔ اور اپنی انا کے بجائے پاکستان کی بقا کی خاطر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب کئی سینئر وکلا جن میں فیصل صدیقی اور منیر اے ملک، حامد خان شامل ہیں نے مجوزہ آئینی ترمیم اور ججوں کی تقرری کے طریقۂ کار کو تبدیل کرنے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے تحریک چلانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔