رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں 10 سال بعد اسمبلی انتخابات؛ وعدے، دعوے اور اعلانات


India Kashmir Election
India Kashmir Election

  • بھارتی کشمیر میں اسمبلی کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں بدھ کو پولنگ ہو رہی ہے۔
  • ووٹنگ کا دوسرا مرحلہ 25 ستمبر اور تیسرا اور آخری مرحلہ یکم اکتوبر کو منعقد ہو گا جب کہ ووٹوں کی گنتی آٹھ اکتوبر کو کی جائے گی۔
  • بھارتیہ جنتا پارٹی (پی جے پی)، کانگریس اور دیگر جماعتیں بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔
  • نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس دفعہ 370 کی منسوخی اور پانچ برس کے دوران مختلف قوانین کے ذریعے اُن کے بقول عوام کو بے طاقت اور بے اختیار بنانے پر بی جے پی کو کوس رہے ہیں۔
  • اسمبلی انتخابات کے لیے علیحدگی پسند رہنما بھی سرگرم ہیں۔
  • لیکن اب علیحدگی پسند کیمپ میں شامل رہے کئی افراد امیدوار بن کر انتخابی میدان میں اُتر آئے ہیں۔

سرینگر -- بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی اسمبلی کے لیے عام انتخابات کا پہلا مرحلہ 18 ستمبر کو منعقد ہو گا۔

غیر معمولی سیکیورٹی انتظامات کے ساتھ ہونے والے انتخابات میں 24 حلقوں میں بدھ کو پولنگ ہو گی۔ وادیٔ کشمیر کے 16 جب کہ جموں کے آٹھ حلقوں میں ووٹنگ ہو گی جس کے لیے 219 اُمیدوار میدان میں ہیں۔

ووٹنگ کا دوسرا مرحلہ 25 ستمبر اور تیسرا اور آخری مرحلہ یکم اکتوبر کو منعقد ہو گا جب کہ ووٹوں کی گنتی آٹھ اکتوبر کو کی جائے گی۔

جموں و کشمیر اسمبلی کی نشستوں کی کُل تعداد 119 ہے۔ 90 جنرل نشستیں ہیں جن کے لیے 88 لاکھ سے زائد ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے جب کہ پانچ پر نامزدگیاں ہوں گی۔ جب کہ 24 نشستیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیے محفوظ رکھی گئی ہیں۔

بھارت پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے اور اسی لیے وہاں کے لیے نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

رجسٹرڈ رائے دہندگان میں 43 لاکھ 13ہزار خواتین اور 168 خواجہ سرا شامل ہیں۔

بھارتی کشمیر میں الیکشن: کیا علیحدگی پسندوں کا مؤقف بدل رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:40 0:00

جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 10 سال کے طویل عرصے کے بعد کرائے جا رہے ہیں۔ اسمبلی کے آخری انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔

جون 2018 میں علاقائی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کی مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد ریاست کے گورنر نے اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا اور اسمبلی چھ سال کی مقررہ مدت پوری نہیں کر پائی تھی۔


دس سال میں انتخابات کیوں نہیں کرائے جا سکے تھے؟

بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو ریاست کی آئینی نیم خود مختاری ختم کر دی تھی اور اس کے ساتھ ہی اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنا دیا تھا۔

یہ علاقے یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔

یہ انتخابات یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کی اسمبلی کے لیے کرائے جا رہے ہیں جس کے ممبران کی تعداد بھارتی حکومت کی طرف سے دو سال قبل قائم کیے گیے حد بندی کمیشن کی سفارش پر 83 سے 90 کردی گئی ہے۔

ان میں سے 47 سیٹیں وادیٔ کشمیر میں اور 43 جموں خطے میں ہیں۔ نو نشتیں درج فہرست قبائل اور درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے نزدیک اسمبلی انتخابات میں تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ جموں کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کرنے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی سمیت دیگر اقدامات کی وجہ سے بی جے پی کو انتخابی میدان میں شکست کا خدشہ تھا۔

اسی لیے وہ الیکشن سے گریز کر رہی تھی۔ تاہم بی جے پی اس تاثر کو مسترد کر چکی ہے۔

انتخابی مہم پر دفعہ 370 کی منسوخی حاوی

انتخابی مہم کے دوراں نئی دہلی میں بر سرِ اقتدار بی جے پی لوگوں سے اپنے اس دعوے کو لے کر ووٹ مانگ رہی ہے کہ پانچ اگست 2019 کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد علاقے میں امن لوٹ آیا جسے مستحکم بنانے کے لیے بی جے پی کی کامیابی ضروری ہے۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 14 ستمبر کو ڈوڈہ شہر میں ایک انتخابی جلسے کے دوراں کہا تھا کہ یہ انتخابات "تین سیاسی خاندانوں کانگریس، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی استحصالی سیاست اور جموں و کشمیر کی نئی پود سے ابھری پر خلوص دیانت دار اور زور آزما سیاسی لیڈرشپ کے درمیان ایک معرکہ ہے۔"

وفاقی وزیرِ داخلہ امت شاہ اپنی انتخابی مہم کے دوران اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ جماعتیں اُن کے بقول جموں و کشمیر کو واپس اُس تاریک دور کی طرف لے جانا چاہتی ہیں جو دفعہ 370 کی منسوخی پر ختم ہو گیا تھا۔

بی جے پی اپنے سیاسی مخالفین پر جموں و کشمیر میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام بھی لگا رہی ہے۔

امت شاہ نے گزشتہ دنوں جموں میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ جموں و کشمیر کے عوام دہشت گردی نہیں چاہتے بلکہ وہ تعلیم، ترقی، صحت اور روزگار چاہتے ہیں جو صرف بی جے پی ہی اور نریندر مودی دے سکتی ہے۔

دوسری جانب علاقائی سیاسی جماعتیں، نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس دفعہ 370 کی منسوخی اور پانچ برس کے دوران مختلف قوانین کے ذریعے اُن کے بقول عوام کو بے طاقت اور بے اختیار بنانے پر بی جے پی کو کوس رہے ہیں۔

ان میں سے بعض ووٹروں کو لبھانے کے لیے ان سے یہ وعدہ کررہی ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں آجاتی ہیں تو نہ صرف دفعہ 370کو بلکہ اس کی ذیلی شق دفعہ 35اے کو بھی واپس لایا جائے گا۔

اس شق کے تحت جموں و کشمیر کے حقیقی باشندے ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد خرید سکتے تھے اور سرکاری ملازمتیں اور تعلیمی وظائف حاصل کر سکتے تھے۔ ان کے لیے دوسرے حقوق اور استحقاق کا تعین کرنے کا اختیار ریاستی قانون سازیہ کو حاصل تھا۔ وہ مسئلہ کشمیر کا دائمی حل تلاش کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ بات چیت کی ضرورت پر بھی زور دے رہی ہیں۔

مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنے اور پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات پر زور

جہاں پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کا استدال ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی نے مسئلہ کشمیر کو اور پیچیدہ کردیا وہیں نیشنل کانفرنس کی لیڈرشپ کہتی ہے کہ جموں و کشمیر میں دائمی امن قائم ہونے کا خواب پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ "اگرچہ پہل نئی دہلی اور اسلام آباد کو کرنی ہے ہم اگر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو طرفین کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے میدان ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔"

جموں و کشمیر کی علاقائی جماعتیں ریاست میں 1978 سے نافذ سخت گیر قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کو منسوخ کرنے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ وہیں اپوزیشن جماعت کانگرس جموں و کشمیر کے اسٹیٹ ہوڈ یا ریاستی درجے کو بحال کرنے کا وعدہ کر رہی ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس بحث و تنقید، وعدوں، دعوؤں، جوابی دعوؤں اور الزامات اور جوابی الزامات کے بیچ کئی ایسے مسائل اور امور نے جن کا عام لوگوں کو ان کی روزمرہ زندگی میں سامنا ہے ثانوی حیثیت اختیار کر لی ہے۔

تاہم عمر عبد اللہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت اس طرح کے مسائل سے ہرگز غافل نہیں ہے۔

کیا ووٹروں سے کیے جا رہے وعدوں کو پورا کرنا ممکن ہے؟

سیاسی تجزیہ کار اور یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر اب بھی ایک یونین ٹریٹری ہے اور یہاں جو نئی اسمبلی وجود میں آئے گی اور جو وزیرِ اعلیٰ بنے گا ان کے اختیارات محدود ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اختیارات کا محور لیفٹننٹ گورنر ہیں۔ اس صورتِ حال میں منتخب عوامی حکومت کے لیے اس طرح کے وعدوں کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ پارٹیاں اس منشور کو لے کر کامیاب ہو جاتی ہیں تو ساری دنیا میں یہ پیغام چلا جائے گا کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔

سابق علیحدگی پسند بھی میدان میں

ان انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ ان میں علیحدگی پسند کیمپ سے وابستہ کئی اہم چہرے بھی میدان میں ہیں جن میں سے چند ایک لوگوں پر ان انتخابات میں حصہ لینے پر زور دے رہے ہیں۔

باقی خود امیدوار بن کر یہ الیکشن لڑ رہے ہیں حالاں کہ ان جماعتوں نے گزشتہ 35 برس کے دوراں بھارتی آئین کے تحت ہونے والے ہر انتخاب کو رد کرتے ہوئے لوگوں پر ان کا بائیکاٹ کرنے کے لیے کہا تھا۔

کشمیری علیحدگی پسند جماعتوں کا یہ اجتماعی مؤقف رہا ہے کہ بھارتی آئین کے تحت ہونے والے انتخابات متنازع ریاست میں استصوابِ رائے کرانے کے اُس وعدے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے جس کا وعدہ ریاستی عوام سے اقوامِ متحدہ نے تقریباً 75 سال پہلے کیا تھا۔

چنانچہ 1989 میں جموں و کشمیر میں مسلح تحریکِ مزاحمت جسے نئی دہلی دہشت گردی قرار دیتی آئی ہے شروع ہونے کے بعد علاقے میں بھارتی پارلیمان، صوبائی اسمبلی یہاں تک کہ بلدیاتی اداروں کے لیے کرائے گیے تقریباً تمام انتخابات سے یہ جماعتیں نہ صرف دور رہیں بلکہ لوگوں سے بھی ان کا بائیکاٹ کرنے کے لیے کہا۔

عسکری تنظیمیں بھی الیکشن بائیکاٹ کی اپیلوں کو کامیاب بنانے کے لیے متحرک نظر آئیں۔ حکم عدولی کرنے والے کئی سیاسی کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

لیکن اب علیحدگی پسند کیمپ میں شامل رہے کئی افراد امیدوار بن کر انتخابی میدان میں اُتر آئے ہیں اور کل تک جسے وہ شجر ممنوعہ قرار دے رہے تھے آج اُسے جمہوریت اور جمہوری نظام کی روح قرار دے رہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس کے ایک سرگرم رکن سید سلیم گیلانی اُن افراد میں شامل ہیں جنہوں نے کشمیر کی آزادی کا نعرہ ترک کر کے حال ہی میں بھارت کے قومی دھارے کی سیاست میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کے استفسار پر کہا کہ یہ نقطۂ نظر کی تبدیلی نہیں بلکہ وقت کے تقاضے کے مطابق اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم لوگوں کو زیادہ دیر تک آزادی کھلا پلا نہیں سکتے۔ ہم انہیں آزادی پہنوا نہیں سکتے۔ آزادی ہی ترقی کا نام نہیں ہے۔ ترقی کی باقی چیزیں بھی ہیں۔ جہاں لوگ مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں وہیں انہیں روزگار بھی چاہیے۔ وہ روزمرہ کے دیگر مسائل کا حل بھی چاہتے ہیں۔"

کالعدم جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے ایک سابق عہدے دار ڈاکٹر طلعت مجید نے جو پلوامہ کی سیٹ پر ایک آزار امیدوار ہیں نے کہا کہ "یہ نظریارتی شفٹ نہیں بلکہ ایک سیاسی شفٹ ہے۔ یہ ایک قلبی فیصلہ ہے۔ یہ جبر کے تحت لیا گیا کوئی فیصلہ نہیں ہے۔"

اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر کی جب بھی بات کی جائے اُس میں جوجیو پولیٹیکل سینئریو کا عمل دخل ہے اُسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا " آج ہم آزادی کیا، ہم پاکستان کیا۔۔۔آج ہم اسٹیٹ ہوڈ (کی بحالی کے مطالبے) پر پہنچ گئے ہیں۔ ہم اب کہتے ہیں کہ پانچ اگست 2019 کو (جموں و کشمیر کی) جو پوزیشن تھی وہ بحال ہونی چاہیے۔ جنہوں نے خود بندوق اٹھائی تھی ان کا بھی یہ اصرار تھا کہ ہمیں سیاسی طور پر کچھ کرنا چاہیے۔ بندوق ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔"

ایسٹیبلشڈ سیاسی جماعتیں خوف زدہ کیوں؟

بھارت نواز کشمیری جماعتوں نے سابق علیحدگی پسندوں کے انتخابی عمل کا حصہ بننے پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔

چند ایک جماعتوں نے اسے دیر آید درست آید قرار دے کر کشمیر کے سیاسی افق پر نظر آنے والی اس اہم تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے۔

تاہم نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، کانگریس اور بعض دوسری جماعتیں الزام لگاتی ہیں کہ سابق علیحدگی پسند اور بڑی تعداد میں لوگ انتخابی میدان میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے بھارتی حکومت کے ایما پر شامل ہوئے ہیں اور اس کا مقصد بی جے پی مخالف ووٹ کو تقسیم کرانا ہے۔ بی جے پی اس الزام کی سختی کے ساتھ تردید کرتی ہے۔

نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور پیپلز کانفرنس کی لیڈر شپ انتخابی مہم میں علاقائی جموں و کشمیر عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر شیخ عبد الرشید کے شامل ہونے پر بھی جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آرہی ہیں۔

چھپن سالہ شیخ عبد الرشید نے جو انجینئر رشید کے نام سے جانے جاتے ہیں دہلی کی تہاڑ جیل سے رہائی ملنے کے فوری بعد سرینگر آ کر اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لیے ایک زور دار مہم شروع کر دی ہے۔ انہوں نے اتوار 15 ستمبر کو جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ساتھ پری پول الائنس کا بھی اعلان کردیا۔

انجینئر رشید کو بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی یا این آئی اے نے اگست 2019 میں ٹیرر فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار کیا تھا۔

انہوں نے تہاڑ جیل میں اسیری کے دوراں ہی عمر عبد اللہ کو رواں برس جون میں بھارتی پارلیمان کے ایوانِ زیرین لوک سبھا کے انتخابات میں بارہمولہ کے حلقے سے دو لاکھ سے زائد ووٹوں کی اکثریت سے ہرایا تھا۔

انہیں گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں این آئے اے خصوصی عدالت نے دو اکتوبر تک ضمانت پر رہا کردیا تھا تاکہ وہ جموں وکشمیر انتخابات میں مہم چلا سکیں۔

اُن کے سیاسی مخالفین نے سوال اٹھایا ہے کہ جب خصوصی عدالت انہیں بھارتی پارلیمان کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے لیے ضمانت پر رہا کرنے میں لیت و لعل کر رہی تھی، انہیں بغیر پس و پیش کے جموں و کشمیر میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے۔

بی جے پی نے ان کی رہائی کو بھارتی جمہوریت کی خوبصورتی قرار دیا ہے وہیں خود انجینئر رشید کا کہنا ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین غالباً چاہتے تھے کہ وہ جیل ہی میں سڑ سڑ کے مر جائیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG