'کرونا وبا ابھی ہے لیکن حکومت نے رسک الاؤنس بند کر دیا'

سندھ میں کئی روز سے ہیلتھ ورکرز سراپا احتجاج ہیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہیلتھ ورکرز کا احتجاج ساتویں روز میں داخل ہو گیا ہے جس سے ملک کے سب سے بڑے شہر اور صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے بھر میں صحت کی سہولیات شدید متاثر ہو رہی ہیں۔

احتجاج کے باعث تمام سرکاری اسپتالوں بشمول جناح اور سول اسپتال میں کئی روز سے آوٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ مکمل طور پر بند ہے جس سے مریض پریشان ہیں۔

بیشتر مریض دور دراز علاقوں سے یہاں علاج کے لیے آتے ہیں جب کہ ہڑتال اور کام بند ہونے کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز میں بھی اسٹاف کی شدید کمی ہے۔

ہیلتھ ورکرز صوبائی حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے ہیلتھ رسک الاؤنس کو دوبارہ بحال کیا جائے جو حکومت نے کرونا کے دوران ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے لیے شروع کیا تھا۔ تاہم حکومت اب اسے مزید جاری رکھنے سے انکار کررہی ہے۔

صوبائی حکام نے مذاکرات کے دوران مظاہرین کو بتایا تھا کہ یہ الاؤنس کرونا وبا کے دوران جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرنے پر ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل اسٹاف بشمول سپورٹنگ اسٹاف اور دیگر کے لیے جاری کیا گیا تھا جسے اسے اب جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

ہیلتھ رسک الاونس کے تحت گریڈ 14 تک کے ملازمین کے لیے 17 ہزار روپے اور اس سے اوپر کے لیے تین ہزار روپے کا الاؤنس مقرر کیا گیا تھا۔

مظاہرین نے کئی بار وزیرِ اعلیٰ ہاؤس کے باہر احتجاج کرنے کی بھی کوشش کی جسے پولیس نے ناکام بنایا۔ اس دوران مظاہرین کی جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے پولیس سے کئی بار جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔ تاہم پولیس لاٹھی چارج، گرفتاریوں اور واٹر کینن کی مدد سے مظاہرین کو روکتی رہی ہے۔

دو روز سے یہ مظاہرین کراچی پریس کلب پر احتجاج کررہے ہیں۔گرینڈ ہیلتھ الائنس کی رہنما بشریٰ آرائیں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ کرونا وبا اب بھی ختم نہیں ہوئی اور حال ہی میں پاکستان کے وزیرِاعظم بھی کرونا کا شکار ہوچکے ہیں۔

صوبائی حکومت نے اچانک سے ہیلتھ رسک الاونس گزشتہ ماہ بند کردیا اور دوسری جانب ہیلتھ ورکر اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو اسی ماہ کرونا سے بچاؤ کی دوسری حفاظتی خوراک لگارہے ہیں جب کہ اس کے بعد تیسری ڈوز بھی لگنی ہے۔

ان کا یہ بھی اصرار تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے کرونا وبا کے دوران یہ رسک الاؤنس ضرور دیا گیا تھا تاہم اسے کرونا رسک الاؤنس نہیں بلکہ ہیلتھ رسک الاؤنس کا نام دیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب میں عام لوگوں کی طرح نرسنگ، سپورٹنگ اسٹاف، ڈاکٹرز اور دیگر بھی بڑی تعداد میں متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی زرعی زمین زیرِ آب آگئی، مال مویشی بہہ گئے، گھر بار بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ایسے میں انہیں ہیلتھ رسک الاؤنس سے محروم کرنا ان کے زخموں پر نمک ڈالنے کے مترادف ہے۔


ان کا کہنا تھا کہ یہ الاؤنس صوبے میں کام کرنے والوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ سندھ کے مقابلے میں دیگر صوبوں میں تنخواہوں کا اسٹرکچر بہت بہتر اور وہاں اسپتالوں کی حالت کافی بہتر ہے۔

احتجاجی مظاہرین کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ وہ گریڈ 18 تک کے ملازمین کے لیے 20 ہزار روپے رسک الاؤنس کی تجوزیز پر بھی بات کے لیے تیار ہیں۔

ادھر سندھ حکومت نے صوبائی وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے جو مظاہرین سے منگل کو مذاکرات کا آغاز کررہی ہے۔

دوسری جانب کراچی میں بین الاقوامی دفاعی نمائش کے تناظر میں کسی ایمرجنسی صورتِ حال سے نمٹنے اور اسپتالوں میں ڈاکٹرز اور دیگر اسٹاف کو یقینی بنانے کے لیے جناح اسپتال نے نیم فوجی فورس یعنی سندھ رینجرز سے ڈاکٹروں کی مدد طلب کرلی ہے۔

صوبائی حکومت کی ترجمان مہر خورشید کا کہنا ہے کہ یہ پیش کش خود سندھ رینجرز کی جانب سے سامنے آئی ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز کی ہڑتال کے باوجود جناح اسپتال کا ایمرجنسی وارڈ بدستور فعال ہے۔