رسائی کے لنکس

دنیا کی آبادی آٹھ ارب، آخر زمین پر کتنے انسان رہ سکتے ہیں؟


اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کی آبادی اب آٹھ ارب کے ہندسے کو عبور کرچکی ہے۔(فائل فوٹو)
اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کی آبادی اب آٹھ ارب کے ہندسے کو عبور کرچکی ہے۔(فائل فوٹو)

منگل کو دنیا کے کسی گوشے میں ایک ایسے بچے کی آمد ہوئی ہو گی جس کی پیدائش کے ساتھ ہی زمین کی آبادی آٹھ ارب ہوگئی۔ آبادی کا یہ ہندسہ جہاں انسانوں کی اس سیارے پر بقا کے طویل سفر کا ایک سنگ میل ہے وہیں نسلِ انسانی اور زمین کے مستقبل سے متعلق کئی سوال بھی اٹھاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کی آبادی اب آٹھ ارب کے ہندسے کو عبور کرچکی ہے۔ اس موقعے کی مناسبت سے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے ایک پیغام میں اسے اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترقی اور تنوع کے ساتھ ہمیں اپنے سیارے سے متعلق بڑھتے ہوئے احساسِ ذمے داری کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق طب، صحتِ عامہ اور انسانی بہبود کے شعبوں میں ترقی کی وجہ سے انسانوں کی اوسط عمر اور طرزِ حیات میں بہتری آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو صدیوں میں انسانوں کی آبادی اس رفتار سے بڑھی ہے جس کی مثال اس کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ میں نہیں ملتی۔ تاہم اس اضافے کی اس تیز رفتار شرح نے کئی خطوں کے لیے مسائل بھی بڑھائے ہیں۔

عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ افریقہ سمیت دنیا کے غریب ترین خطوں میں آبادی میں اضافے کی شرح بڑھنے سے ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔

البتہ آبادی میں اضافے کا سوال صرف کسی خاص خطے کے لیے اہم نہیں، اسے اب کرۂ ارض پر پائے جانے والے مجموعی وسائل کے کافی و ناکافی ہونے جیسے خدشات کی وجہ سے بھی اہمیت حاصل ہے۔

زمین کتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے؟

آبادی میں اضافے کے ساتھ اس سوال کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ زمین کتنے انسانوں کا بوجھ سہار سکتی ہے؟ البتہ ماہرین کے نزدیک آبادی میں اضافے سے زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امیر ترین طبقات اس سیارے پر پائے جانے والے وسائل کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی سربراہ نتالیہ کینم کا کہنا ہے کہ بعض لوگ اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا کی آبادی بے قابو ہوچکی ہے۔ ان کے بقول، صرف انسانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بنیاد بنا کر خدشات پیدا نہیں ہونے چاہئیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق راک فیلر یونیورسٹی کی لیبارٹری آف پاپولیش سے تعلق رکھنے والے جوئیل کوہن کا کہنا ہے یہ سوال کہ زمین کتنے انسانوں کا بوجھ اٹھا سکتی ہے، اس کے دو جواب ہوسکتے ہیں۔ اس کی ایک فطری حد ہے اور دوسرے کا انحصار انسانوں پر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم نے وہ راستہ منتخب کیا ہے جس میں ہم اس سیارے کے فطری وسائل مثلاً جنگلات، زمین وغیرہ کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔ یہ وہ وسائل ہیں جنہیں ہمارا سیارہ دوبارہ پیدا کرلیتا ہے۔

اسی طرح معدنی ایندھن یعنی تیل اور کوئلہ وغیرہ کے بے حد استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھ رہا ہے جو دنیا میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کا سبب ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین کی اپنے وسائل کو دوبارہ پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔ اس لیے یہ زمین کتنی آبادی کے لیے جینے کا سامان فراہم کرسکتی ہے؟ اس کی کنجی بھی انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس سیارے کے ماحول کو کتنا محفوظ بناتا ہے جو اب تک اس لامتناہی کائنات میں اس کی واحد پناہ گاہ ہے۔

کوہن کے بقول، انسان نا سمجھ ہیں۔ ہم بصیرت سے عاری ہیں۔ ہم اپنے پاس موجود معلومات کو بروئے کار نہیں لارہے ہیں۔ ہم یہ جاننے کی کوشش نہیں کررہے ہیں کہ ہمارا انتخاب کیا ہے اور مسائل کہاں سے جنم لے رہے ہیں۔

البتہ وہ اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ انسانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد زمین کے لیے تباہ کُن ثابت ہورہی ہے۔ ان کے نزدیک زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو روز مرہ زندگی کے لیے بہتر ذرائع فراہم کیے جائیں۔

کیا آبادی 10 ارب کا ہندسہ عبور کرے گی؟

دنیا کی آبادی 1950 میں ڈھائی ارب تھی جس میں تین گنا تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق دنیا کی آبادی میں اضافی کی شرح میں ڈرامائی اضافہ 1960 کی دہائی میں دیکھا گیا تھا لیکن اس میں رفتہ رفتہ کمی آرہی ہے۔ 1962 سے 1965 کے دوران آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 2.1 فی صد تھی جو 2020 میں ایک فی صد تک آگئی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق آبادی میں اضافے کی شرح 2050 تک اعشاریہ پانچ فی صد تک کم ہونے کی توقع ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق دنیا کی آبادی 2030 تک ساڑھے آٹھ ارب، 2050 تک 9.7 ارب اور 2080 کی دہائی تک 10.4 ارب تک جاسکتی ہے۔ آبادی کے اعداد و شمار پر کام کرنے والے دیگر اداروں اور تنظیموں کے اندازے اقوامِ متحدہ سے مختلف ہیں۔

امریکہ میں قائم ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ہیلٹھ میٹرکس اینڈ ایولوشن (آئی ایچ ایم ای) کی 2020 میں مرتبہ کی گئی رپورٹ کے مطابق 2064 تک عالمی آبادی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی لیکن کبھی 10 ارب کا ہندسہ عبور نہیں کرے گی۔ بلکہ سال 2100 تک یہ کم ہوکر 8.8 ارب نفوس پر آجائے گی۔

دو سو سال میں ایک ارب سے آٹھ ارب

افریقہ میں 20 لاکھ سال پہلے ابتدائی انسانوں کے ظہور کے بعد تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی آبادی نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ہمارے اجداد ابتدا میں شکار کرکے خوراک حاصل کرتے تھے۔ یہ انسانوں کی خانہ بدوشی کا دور تھا اور اس میں ان کی شرحِ پیدائش بھی بہت کم تھی۔

کم و بیش 10 ہزار قبلِ مسیح میں زراعت کے آغاز کے بعد انسانی آبادی میں بڑا اضافہ شروع ہوا۔ زراعت کے ساتھ ساتھ انسانوں نے خوراک جمع کرنے کے طریقے بھی سیکھ لیے۔ خوراک کی بہ آسانی دستیابی سے شرحِ پیدائش پر بھی مثبت اثر پڑا۔

فرینچ انسٹی ٹیوٹ فور ڈیموگرافک اسٹڈیز کے مطابق 10 ہزار قبلِ مسیح میں انسانوں کی آبادی لگ بھگ 60 لاکھ رہی ہوگی۔ لیکن بعد کے آٹھ ہزار برسوں میں یہ 10 کروڑ تک پہنچ گئی۔ اس کے بعد پہلی صدی عیسوی تک آتے آتے دنیا کی آبادی اندازاً 25 کروڑ ہوچکی تھی۔

اس دوران وباؤں اور جنگوں کے باعث دنیا کی آبادی میں اضافے کی شرح اثراندازمتاثر ہوتی رہی۔ 1300 اور 1400 کی صدیوں میں مغربی یورپ اور شمالی امریکہ میں پھیلنے والی طاعون کی وبا، کے دوران جسے ’بلیک ڈیتھ‘ کہا جاتا ہے، دنیا کی آبادی تقریبا 43 کروڑ سے کم ہوکر 37 کروڑ تک آگئی تھی۔

اسی طرح دنیا کی پہلی طاعون کی وبا تصور ہونے والے ’جسٹینئن پلیگ‘ میں بھی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں جس کی وجہ سے آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی آئی۔دنیا کے مختلف خطوں میں آنے والی وبائیں، قحط سالی اور قدرتی آفات سے بڑے پیمانے پر اموات بھی آبادی کی شرحِ اضافہ میں کمی کا باعث بنتی رہیں۔

تاہم انیسویں صدی میں طب کے میدان میں آنے والی جدت، زراعت کے ساتھ بڑے پیمانے پر صنعتوں کے منسلک ہونے اور بین الاقوامی تجارت کے بڑھتے ہوئے حجم سے پیدا ہونے والے معاشی حالات سے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

انہی محرکات کی وجہ سے 1800 کے بعد سے آبادی میں آٹھ گنا اضافہ شروع ہوا اور محض 200 برسوں میں دنیا کی آبادی ایک ارب سے آٹھ ارب ہوگئی۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG