پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 20 نشستوں پر 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات سیاست میں توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ضمنی انتخابات کا یہ معرکہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے نتائج پر پنجاب کی حکمرانی کے مستقبل کا دار و مدار ہے جہاں اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔
اس لیے یہ سوال اور بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اپنے سیاسی قوت کے مرکز میں درپیش اس اہم ترین مقابلے میں جماعت کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف فعال کردار ادا کرتے کیوں نظر نہیں آرہے ہیں؟
دوسری جانب صوبے میں مسلم لیگ (ن) کے سب سے بڑے سیاسی حریف پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)کے سربراہ عمران خان ان حلقوں میں انتخابی مہم کی قیادت خود کررہے ہیں، جب کہ مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم پارٹی کی نائب صدر مریم نواز کر رہی ہیں۔
پارٹی کے صدر شہباز شریف وزیرِ اعظم اور حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے انتخابی ضوابط کے تحت انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کچھ عرصہ قبل تک اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے عمران خان کی حکومت کے دوران جارحانہ خطاب کرتے رہے ہیں۔ ان تقاریر میں نواز شریف کا بنیادی نعرہ 'ووٹ کو عزت دو' تھا جو اُنہوں نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل متعارف کرایا تھا۔
لیکن عمران خان حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے اور مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف محض پارٹی اجلاسوں کی صدارت تک ہی محدود ہیں اور ان کا عوام کے ساتھ رابطہ کسی حد تک محدود ہو گیا ہے۔
کیا نواز شریف کسی ڈیل کے تحت خاموش ہیں؟ کیا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اب پرانا ہو گیا ہے؟ کیا نواز شریف اور ان کے بچوں کے لیے اقتدار کے دروازے بند ہو چکے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے نواز شریف کے طرزِ سیاست کو قریب سے دیکھنے والے تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔
'ہو سکتا ہے کہ کوئی معاہدہ ہو کہ نواز شریف خاموش ہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اس اہم انتخابی مہم کے دوران واقعی کہیں نظر نہیں آ رہے جو معنی خیز ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ بظاہر نواز شریف کی نمائندگی اُن کی صاحب زادی مریم نواز ہی کر رہی ہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پچھلے تین ماہ میں پیش آنے والے واقعات پر نظر دوڑائیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف نے صر ف ایک اجلاس کی صدارت کی ہے، جس میں وزیرِ اعظم سمیت مسلم لیگ (ن)کے اہم رہنماؤں کو مشاورت کے لیے لندن بلایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اُن کی کہیں زیادہ مداخلت نظر نہیں آئی۔
SEE ALSO: نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانیہ؛ 'ملک کسی نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا'سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ نواز شریف خود ہی ان انتخابات کے دوران خطاب کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے، کیوں کہ مریم نواز اُنہی کی آواز ہیں۔ تاہم اُن کے بقول یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ 17 جولائی سے قبل نواز شریف کا کوئی ویڈیو پیغام جاری کیا جائے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ شہباز شریف وزیر اعظم اور حمزہ شہباز وزیرِ اعلٰی پنجاب ہیں، لیکن ووٹ بینک صرف نواز شریف کا ہی ہے۔
اُن کے بقول پارٹی نے ہی یہ طے کیا ہے کہ پارلیمانی محاذ شہباز شریف سنبھالیں گے جب کہ سیاسی اور عوامی محاذ پر مریم نواز اپنا کردار ادا کریں گی۔
'یہ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ والی سیاست ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اگر مریم نواز جلسوں سے خطاب نہ کر رہی ہوں، تو اس سے یہ تاثر ضرور ملتا کہ شریف خاندان میں اختلافات ہیں۔ تاہم اُن کے بقول اگر نواز شریف لندن سے بیٹھ کر جلسوں سے خطاب کرتے تو اس سے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملتا کہ 'بھگوڑا' باہر بیٹھ کر خطاب کر رہا ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ضمنی انتخابات نظریاتی سیاست پر نہیں لڑے جاتے، بلکہ وہ گلی محلے کی سیاست پر لڑے جاتے ہیں۔
اُن کے بقول موجودہ حکومت کو مسلم لیگ (ن) کے بیانیے 'ووٹ کے عزت دو' سے مبینہ طور پر پیچھے ہٹنے سے زیادہ نقصان نہیں ہوا بلکہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اس کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔
نصرت جاوید نے مزید کہا کہ اگر نواز شریف اور شہباز شریف میں اختلافات ہوتے تو مریم نواز جگہ جگہ جلسے نہ کر رہی ہوتیں۔
سابق وزیرِ اعظم کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نواز شریف اگر منظوری نہ دیتے تو تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہ ہوتی اور نہ ہی شہباز شریف وزیرِ اعظم بنتے۔ البتہ ان کے خیال میں دونوں بھائی 'گڈ کاپ، بیڈ کاپ' والی سیاست کر رہے ہیں۔
'یہ میاں نواز شریف کے لیے آئیڈیل صورتِ حال نہیں ہے'
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جن حالات میں مسلم لیگ (ن) نے یہ حکومت سنبھالی ہے، اس پر نواز شریف کے تحفظات تھے ۔اُنہوں نے خوش دلی سے یہ سب کچھ تسلیم نہیں کیا تھا لیکن پارٹی کا دباؤ تھا کہ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت میں آنا چاہیے۔
اُن کے بقول نواز شریف چاہتے تھے کہ عام انتخابات تک انتظار کیا جائے اور نئے مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار حاصل کیا جائے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اُنہیں لگتا ہے کہ نواز شریف عام انتخابات سے قبل وطن واپس آئیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شریف خاندان میں بظاہر کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن یہ تحفظات ضرور ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کے کیسز ختم نہیں ہوئے اور مریم نواز کہیں ایڈجسٹ نہیں ہوئیں۔
مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اسحٰق ڈار کی واپسی کی راہ بھی ہموار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔
'اگر اسحٰق ڈار واپس آئیں گے، تو نواز شریف بھی آئیں گے'
گزشتہ چند روز سے مقامی میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ سابق وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار وطن واپس آ کر وزارتِ خزانہ کا قلم دان سنبھال لیں گے۔
SEE ALSO: شہباز شریف کا ایک کروڑ 40 لاکھ خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ سبسڈی دینے کا اعلانسلمان غنی کہتے ہیں کہ اگر اسحٰق ڈار واپس آئیں گے تو پھر نواز شریف بھی وطن واپس آئیں گے۔
اُن کے بقول اسحٰق ڈار کی وطن واپسی پر پارٹی کے اندر کچھ تحفظات ضرور موجود ہیں لیکن نواز شریف کے فیصلے کو ہی مسلم لیگ (ن) میں حتمی حیثیت حاصل ہے۔
'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے سے پیچھے ہٹنے کے سوال پر سلمان غنی کہتے ہیں کہ اب نواز شریف سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے نعرے پر عمل پیرا ہیں۔
اُن کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح مسلم لیگ (ن) حکومت میں آئی، اس سے ان کے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ متاثر ہوا ہے۔ خصوصاً پنجاب جو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے، وہاں مسلم لیگ (ن) کی سیاست ایک طرح سے داؤ پر لگ گئی ہے۔
'نواز شریف بالکل بھی خاموش نہیں ہیں'
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا مشہود کہتے ہیں کہ نواز شریف بالکل بھی خاموش نہیں ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) کے اجلاسوں کی صدارت کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رانا مشہود کا کہنا تھا کہ جب بھی پارٹی کو محسوس ہوا کہ نواز شریف کی ضرورت ہے تو وہ ضرور عوام سے مخاطب ہوں گے، فی الحال اُنہوں نے مریم نواز کو انتخابی مہم چلانے کا حکم دے رکھا ہے۔
رانا مشہود کہتے ہیں کہ نواز شریف کا اب وہ اسٹیٹس نہیں کہ وہ عمران خان کے مقابلے میں جلسوں سے خطاب کریں، یہ کام مریم نواز اور پارٹی رہنما بخوبی کر رہے ہیں۔