اسرائیل اور حماس جنگ کے دوران اسلامی ممالک کی تنظیم 'آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن' (او آئی سی) اجلاس میں اسرائیل کے خلاف دو ٹوک مؤقف سامنے نہ آنے کا معاملہ کئی اسلامی ممالک میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان ممالک کی جانب سے ردِعمل کے نتائج آنا شروع ہو جائیں گے جب کہ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ دنیا کے معروضی حالات اور امریکہ کے اثر و رسوخ کے باعث کئی اسلامی ممالک کے لیے اسرائیل کے خلاف جارحانہ مؤقف اپنانا مشکل ہے۔
ہفتے کو سعودی عرب کے شہر ریاض میں غزہ کی صورتِ حال پر بلائے گئے سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مختلف نوعیت کے اقدامات تجویز کیے جانے کے باوجود اسلامی ممالک کی تنظیم کسی مشترکہ لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکی تھی۔
اسرائیل اور حماس کی جاری جنگ کے تناظر میں او آئی سی کے اس غیر معمولی اجلاس کو دنیا بھر میں اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا تھا۔
شام، لبنان، ترکیہ، ایران اور قطر کی جانب سے سخت اقدام تجویز کیے جانے کے بعد قیاس کیا جا رہا تھا کہ اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کر پائیں گے ۔
ہفتے کو ریاض میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں او آئی سی نے غزہ میں فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے اپنے دفاع کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے جواز کو مسترد کیا تھا۔
'آئندہ ہفتے تک عملی اقدامات سامنے آئیں گے'
وزیرِ اعظم پاکستان کے معاونِ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ اُمور حافظ طاہر محمود اشرفی اس اجلاس کے نتائج کے باوجود پراُمید ہیں کہ آنے والے دنوں میں اس کے اثرات سامنے آئیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں ایک طویل عرصے کے بعد ایران اور ترکیہ کے سربراہان سمیت اسلامی ممالک کی قیادت ریاض میں اکھٹی ہوئی اور جنگ بندی، شہریوں کے لئے ضروری ہنگامی امداد اور فلسطینیوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کی کھل کر حمایت کی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ "اسلامی دنیا کے پاس دو راستے تھے ایک جنگ کا اور دوسرا مذاکرات کا، او آئی سی نے پہلے مذاکرات کا راستہ اپنایا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ اگر او آئی سی کو مذاکرات سے حل میں کامیابی نہیں ہوتی تو آگے چل کے وہ عملی اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے جن کی ابھی توقع نہیں کی جا رہی۔
اسرائیل سے تجارتی و سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی تجویز پر طاہر محمود اشرفی کہتے ہیں کہ او آئی سی نے جو اقدام بھی لینا تھا وہ حقیقت پسندی کو دیکھتے ہوئے لینا تھا اور عملی صورت یہ ہے کہ ابھی بھی 30 سے زائد اسلامی ممالک نے اسرائیل سے اپنے تعلقات کو منقطع نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کی تنظیم کے اجلاس نے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک کو اسلحہ فراہمی روکنے کا کہا ہے اور واضح کیا ہے کہ اسلامی دنیا فلسطینیوں کی پشت پر کھڑی ہے۔
SEE ALSO: غزہ کی صورتِ حال پر او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس، کس رہنما نے کیا کہا؟یاد رہے کہ او آئی سی اجلاس میں ایران کی طرف سے تمام رکن ممالک سے اسرائیلی فوج کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے کا کہا گیا تھا جب کہ شام کے صدر بشار الاسد نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
ایران کا شمار مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے بڑے حریفوں میں ہوتا ہے۔ غزہ میں کارروائیوں پر اسرائیل کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد اپنے دفاع کے حق کے تحت غزہ میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
'تعلقات منقطع کرنے جیسا آسان فیصلہ بھی نہیں لیا گیا'
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک کے سیاسی، سفارتی، معاشی و دفاعی اعتبار سے امریکہ پر انحصار کے باعث اور باہمی اختلافات کے سبب او آئی سی کسی واضح حکمتِ عملی اور مشترکہ عملی اقدمات پر اتفاق نہیں کر پائی۔
سابق سفارت کار نجم الثاقب کہتے ہیں کہ مسلم ممالک کے انفرادی ردِعمل اور او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ سربراہی اجلاس میں کوئی مشترکہ عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اجلاس کے اعلامیے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا اور اسرائیل سے سفیروں کو واپس بلانے جیسا آسان فیصلے پر بھی اتفاق نہیں ہو پایا ۔
وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کو تیل کی فراہمی بند کرنے اور متحدہ محاذ بنانے جیسی سخت تجاویز کو پس پشت ڈالتے ہوئے او آئی سی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کروائے۔
نجم الثاقب کہتے ہیں کہ انہیں اسلامی ممالک کی جانب سے کوئی عملی اقدام نہ اٹھانے پر مایوسی ہوئی ہے۔ لیکن یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ بہت سے مسلم ممالک بلواسطہ یا بلا واسطہ اپنے سیاسی، سفارتی، معاشی اور دفاعی مفادات کے لیے امریکہ اور یورپ پر انحصار کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ او آئی سی اجلاس میں کسی متفقہ حکمتِ عملی کے سامنے نہ آنے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ عرب ممالک اس جنگ کو فلسطینیوں کی نہیں بلکہ حماس اور اسرائیل کی جنگ تصور کرتے ہیں۔
'پاکستان نے واضح کردیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا'
او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ غزہ میں شہری ہلاکتیں رکوانے کی ذمے داری اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر ہے۔
نجم الثاقب کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی قربتوں کے بعد پاکستان میں بھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ شاید اسلام آباد بھی اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کر سکتا ہے۔
تاہم اُن کے بقول سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اب یہ سارے معاملات بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
نجم الثاقب نے کہا کہ وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے او آئی سی اجلاس میں پاکستان کے اسی مؤقف کو دہرایا ہے اور باور کروایا ہے کہ اسلام آباد فلسطینیوں کی اخلاقی، سیاسی و سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
واضح رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور غزہ پر اسرائیلی بمباری پر پاکستان نے تنازع کے 'دو ریاستی حل' کے دیرینہ مؤقف کو دہرایا تھا۔
'اسرائیل کے خلاف مشترکہ اقدام زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے'
تجزیہ نگار ڈاکٹر سید محمد علی کہتے ہیں کہ 57 مسلم اکثریتی ریاستوں کے اکٹھ کا بنیادی مقصد عوامی جذبات کی ترجمانی کرنا تھا۔ لیکن ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے انفرادی سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی تعلقات پر نظرِثانی کرنے یا اسے ختم کرنے پر متفق ہو جائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ جئب بات اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی آتی ہے تو اسلامی ملکوں کو تین طرح کی درجہ بندی میں دیکھا جا سکتا ہے جن میں سے کچھ ممالک اصولی اور نظریاتی طور پر فلسطین کو بطور آزاد ریاست دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے وہ ممالک ہیں جن کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی و معاشی تعلقات استوار ہیں اور تیسرے وہ ملک ہیں جو 'ابراہم اکارڈ' کے بعد اسرائیل سے مفاہمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
خیال رہے کہ 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں مختلف عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی کے لیے معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے جنہیں ' ابراہم اکارڈز 'کا نام دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کا مقصد عرب ممالک میں اسرائیل کو وسیع پیمانے پر تسلیم کر انا تھا اور ان معاہدوں نے بحرین، مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدوں اور فوجی تعاون کی راہ ہموار کی تھی۔
(او آئی سی) اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی عالمی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1969 میں ایک چارٹر کے ذریعے رکھی گئی۔ او آئی سی میں 57 ممالک شامل ہیں جن کی مجموعی آبادی دو ارب کے قریب ہے۔
او آئی سی اپنے رکن ممالک سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو لاحق مسائل حل کرنے کے لیے بین الاقوامی میکنزم بشمول اقوامِ متحدہ کا ہر خصوصی ادارہ، حکومتوں، اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی شراکت دار ہے۔