پاکستان کے لیے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت دوسری قسط کے اجرا سے قبل عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ٹیم دو نومبر کو پاکستان پہنچ رہی ہے۔
یہ ٹیم ملکی معاشی اشاریوں کو دیکھنے کے بعد پاکستان کے لیے 70 کروڑ ڈالر کی اگلی قسط جاری کرنے یا نہ کرنے پر فنڈ کو رائے دے گی۔
ادھر نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے مقرر کردہ تمام اہداف بشمول ریونیو ٹارگٹس حاصل کر لیے ہیں۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت اس حوالے سے کافی آرام دہ صورتِ حال میں ہے۔ اُن کے بقول دوسری قسط کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ ملاقاتیں کامیابی سے مکمل ہو جائیں گی۔
پاکستان میں اگست میں قائم ہونے والی نگراں حکومت سے قبل پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران پاکستان کو آئی ایم ایف سے جاری پرانے قرض پروگرام کی آخری دو اقساط کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا تھا۔
آخر کار وہ پروگرام نامکمل ہی رہا تھا جس کے بعد فریقین جولائی کے اواخر میں نو ماہ کے نئے اسٹینڈ بائی معاہدے پر رضامند ہوئے تھے۔
معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر ملیں گے اور اس سلسلے میں 1.2 ارب ڈالر کی پہلی قسط پہلے ہی پاکستان حاصل کر چکا ہے۔
تاہم ماضی کے برعکس دوسری قسط کے جلد اجرا کے لیے اس بار حکام کافی پرامید نظر آتے ہیں۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت کی کارکردگی اس حوالے سے بہرحال سابقہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے مختلف نظر آرہی ہے۔
'حکومت اس بار ہدف سے زیادہ محصولات جمع کرنے میں کامیاب رہی'
مقامی بروکریج ہاؤس ابا علی سیکیورٹیز میں ریسرچر اور تجزیہ کار سلمان نقوی نے نشاندہی کی کہ پچھلی حکومتوں کو محصولات بڑھانے پر عوامی دباؤ کا سامنا تھا۔
اس کی واضح مثال اس وقت نظر آئی جب سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کوشش کے باوجود تاجروں دکان داروں پر ٹیکس کا نفاذ نہ کرسکے۔
اُن کے بقول سیاسی حکومتیں بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے پر بھی سیاسی نقصان اٹھانے کے باعث اضافہ کرنے سے کترا رہی رہی تھیں جس سے گیس سیکٹر میں گردشی قرضے کا حجم بڑھتا چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں گیس مہنگی تھی، لیکن پاکستان کی حکومت دنیا سے مہنگی گیس خرید کر سستی گیس ملک میں فروخت کر رہی تھی۔ کم و بیش ایسی ہی وجوہات کی بناٗ پر بجلی کے سیکٹر میں بھی گردشی قرضے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
تاہم یہ بھی دیکھا گیا کہ اس سب کے باوجود ملک سے اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور پھر ایکسچینج ریٹ بڑھنے کے سبب مہنگائی 40 سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی اور اس سے پی ڈی ایم جماعتوں کی سیاسی مقبولیت پر بھی فرق پڑا۔
سلمان نقوی کے مطابق اس کے مقابلے میں موجودہ نگراں حکومت نے اسے اب تک تو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا ہے۔
اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا ہے اور حوالہ ہنڈی کو کنٹرول کر کے روپے کی قیمت بھی کسی حد تک بہتر ہوئی ہے۔
سلمان نقوی کے بقول نگراں حکومت کو معیشت کی بحالی کے لیے ابھی مزید ایسے اقدامات کرنا ہوں گے اور اس میں ان کے نزدیک سب سے اہم ملک کے ٹیکس نظام میں اصلاحات ہیں۔
اُن کے بقول پاکستان میں کاروبار کو آسان بنانے کے لیے متعدد اقدامات سمیت برآمدات کو ترجیح دینا ہو گی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف فی الحال حکومت کے موجودہ اقدامات سے مطمئن ہو جائے گا اور نئی قسط جاری کر دی جائے گی۔
SEE ALSO: اسرائیل حماس جنگ: کیا پاکستانی معیشت متاثر ہونے کا بھی اندیشہ ہے؟اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان نے جولائی تا ستمبر ملک میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق بورڈ 2 ہزار 41 ارب روپے کے ٹیکس جمع کرنے میں کامیاب رہا ہے جو ہدف سے 3 فی صد زیادہ ہے۔
اس میں سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹمز ڈیوٹی شامل ہے۔ اس کے علاوہ انکم ٹیکس اور پیٹرولیم لیوی کی مد میں لیے جانے والا ٹیکس بھی زیادہ ہوا ہے۔
حکومت کو ملنے والے تمام محصولات کو جی ڈی پی کا ڈھائی فی صد بتایا جاتا ہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی سہ ماہی میں 2.4 فی صد تھا۔
اسی طرح پاکستان کا بجٹ خسارہ بھی گزشتہ مالی سال کی اسی سہ ماہی سے کم رہا ہے۔ تاہم یہ جی ڈی پی کا اب بھی 0.9 فی صد ہے۔ اس کمی کی بنیادی وجہ ملک کے تمام صوبوں کی جانب سے اس سہ ماہی میں کیش سرپلس رہنا بتایا گیا ہے۔
دوسری جانب حکومت کے جاری اخراجات جی ڈی پی کا تین فی صد رہے ہیں اور اس میں اضافے کی اہم وجہ شرح سود میں اضافہ بتائی جاتی ہے۔
یہی حکومت کے بجٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی نہ ہونے کی اہم وجہ بتائی جاتی ہے۔ سادہ الفاظ میں محصولات بڑھنے کے باوجود حکومتی اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے بجٹ خسارے پر قابو نہیں پایا جارہا۔
'محصولات میں اضافوں کے باوجود بیرونی ادائیگیاں مسئلہ بن سکتی ہیں'
اقتصادی مبصر اور تجزیہ کار، شہریار بٹ کہتے ہیں کہ اس بار حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے زیادہ تر وعدوں کی پاسداری کی ہے جو ملک کے معاشی استحکام کے لیے بھی اہم تھے۔
اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ حکومت خود کو آرام دہ صورتِ حال میں محسوس کر رہی ہے۔ تاہم، اب بھی بڑھتے ہوئے بیرونی فنانسنگ گیپ پر فنڈ کے خدشات کو دور کرنا ہو گا جس کے لیے مزید فنانسنگ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
حکام پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف اس سہ ماہی میں پاکستان کی بہتر کارکردگی کے باعث اسے رعایت دے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس وقت بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں ساڑھے چار ارب ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کے لیے حکومت بین الاقوامی کمرشل بینکس سے قرضے حاصل کرنے کے ساتھ ڈیڑھ ارب ڈالر کے یورو بانڈز جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
لیکن اس وقت پاکستان کی گری ہوئی کریڈٹ ریٹنگ اور دنیا بھر میں شرح سود زیادہ ہونے کے باعث یہ زیادہ سود مند نظر نہیں آتا۔ تاہم آئی ایم ایف پروگرام میں موجودگی سے کمرشل بینکس اور دیگر مالیاتی ادارے قرضوں کی ری شیڈولنگ سمیت دیگر شرائط نرم کرنے کو تیار رہتے ہیں۔