|
کراچی -- اسلام آباد میں گزشتہ دنوں سیاسی کشیدگی کے باوجود مشرقی یورپ کے ملک بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا جو بدھ کو اختتام پذیر ہوا۔
حکومت کی جانب سے اس دورے کو دفاعی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ جب کہ سفارتی امور پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بیلاروسی صدر کا پُرتپاک استقبال اور اس دوران کئی معاہدے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسلام آباد اپنی خارجہ پالیسی میں روسی اتحادیوں کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔
بیلاروسی صدر کی موجودگی میں دونوں ممالک نے 15معاہدوں اور مفاہمت کی دستاویزات پر دستخط کیے جن میں آئندہ دو سال کی مدت کے جامع تعاون کا روڈ میپ بھی شامل ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ روڈ میپ مختلف اقدامات کے ذریعے دو طرفہ اقتصادی تعاون کو بڑھانے پر مرکوز ہے۔
پاکستان کی فوج کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرسے بھی ملاقات کی جس میں دفاعی تعاون کے امکانات اور علاقائی سلامتی پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر آرمی چیف نے دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور وسعت دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
مشرقی یورپ کے اس چھوٹے ملک جس کی آبادی محض 91 لاکھ کے لگ بھگ ہے 1991 میں روس سے آزادی حاصل کی تھی اور یہ روس اور یورپ کے درمیان اہم اسٹریٹجک محلِ وقوع کا حامل ملک ہے۔
یوکرین جنگ؛ روسی اتحادی پاکستان کی جانب کیوں دیکھ رہے ہیں؟
پاکستان کونسل آن فارن ریلیشنز کے شریک چیئرمین اور سابق سفیر سید حسن حبیب کہتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ نے پاکستان کی اہمیت کو کئی گنا بڑھایا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس جنگ کے نتیجے میں بیلاروس اور وسطی ایشیا کے کئی ممالک جو روسی حکومت کے قریب سمجھے جاتے ہیں، انہیں امریکی پابندیوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں ان ممالک کو تجارت کے لیے نئی راہداریوں کی ضرورت ہے اور ان کی نظریں پاکستان پر جاتی ہیں۔
سید حسن حبیب کا کہنا ہے کہ دنیا علاقائی تجارت اور انضمام سے بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے اور پاکستان کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بہت سے مواقع ہیں۔
حسن حبیب نے مزید کہا کہ وسطی ایشیائی ممالک پاکستان سے روڈ اور ریل کے ذریعے منسلک ہو کر اپنے لیے تجارتی راہداریاں بنانا چاہتے ہیں اور اس سے پاکستان ایک ٹرانزٹ حب بن سکتا ہے۔ لیکن ابھی اس ضمن میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ان کی جانب سے تیار کیے گئے ورکنگ پیپر پر کچھ کام ہوا ہے اور اب پاکستان سے نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) کے ٹرکوں کے ذریعے افغانستان اور ایران کے راستے تمام وسطی ایشیائی ریاستوں، چین، ترکیہ، آذربائیجان، روس، پولینڈ اور دیگر ممالک تک تجارتی سامان کی ترسیل ممکن بنائی گئی ہے۔
لیکن تجارتی سامان بڑی تعداد میں لانے کے لیے ریل لنک قائم ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ کبھی اسلام آباد کی فعال سفارت کاری صرف مغربی بلاک کے ممالک ہی کے ساتھ تھی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس کا رخ اب علاقائی تنظیموں کی طرف ہے اور وہ چین اور روس کی قیادت والے بلاک کی طرف بھی دیکھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑی طاقتوں سے پاکستان کے تعلقات برابری اور توازن پر مبنی ہونے چاہیے اور غالباً پاکستان میں اسی کی کوشش کی جا رہی ہے۔
'پاکستان اور بیلارروس کا ایک دوسرے سے قریب آنا کوئی انوکھی کی بات نہیں'
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی گوادر اور کراچی بندرگاہیں بیلاروس سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے ٹرانزٹ حب بن سکتی ہیں۔
سابق سفارت کار غلام رسول بلوچ کا کہنا ہے کہ ماضی سے زیادہ دونوں ممالک کی نظر مستقبل کی جانب ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان اور بیلارروس کا قریب آنا کوئی انوکھی بات نہیں۔
غلام رسول بلوچ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان زراعت کے شعبے میں تعاون کی بہت بڑی صلاحیت ہے اور زراعت میں استعمال ہونے والی مختلف قسم کی مشینری بنانے کے لیے مشترکہ پیداوار بھی ممکن ہے۔
انہوں نے پاکستان کی موجودہ سفارتی پالیسی میں ان تبدیلیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دنیا سرد جنگ کے بعد کافی بدل چکی ہے اور تیزی سے ایک اور دو مرکزی (یونی پولر اور بائی پولر) کے بجائے کثیر المرکز یعنی (ملٹی پولر)ٰ میں تبدیل ہو چکی ہے۔
اُن کے بقول اس بدلتی دنیا میں پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔
سابق سفیر سید حسن حبیب کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان ٹرانسپورٹ اور زراعت کے شعبوں کے علاوہ آڈیٹنگ، موسمیاتی تبدیلیوں، وکیشنل ٹریننگ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح اس خطے کو گوشت اور ٹیکسٹائل کی برآمدات سے بھی پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
'دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے کے مواقع موجود ہیں'
کراچی میں قائم ایک تھنک ٹینک پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک دہائی میں بیلاروس سے پاکستان کا تجارتی خسارہ 33 ملین ڈالر سے کم ہو کر 18 ملین ڈالر تک آ گیا ہے۔
پاکستان کی بیلاروس کو بھیجے جانے والی اشیا میں آپٹیکل اور فوٹو گرافک آلات، ملبوسات، کپاس، چمڑا، جوتے اور کھلونے شامل ہیں۔ جب کہ بیلا روس سے پاکستان منگوائی جانے والی اشیا میں فائبر، لکڑی کے گودے کے علاوہ توانائی کے حصول کے لیے نیوکلیئر ری ایکٹرز بھی شامل ہیں۔
تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ پاکستان بیلاروس کو پانچ ارب ڈالرز تک کی برآمدات کر سکتا ہے جن میں پلاسٹک کا سامان، پھل، فارماسیوٹیکل مصنوعات اور دیگر اشیا بھی شامل ہیں۔