|
لاہور -- پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے منگل کی شب اسلام آباد میں احتجاج ختم کرنے کا معاملہ اب بھی موضوعِ بحث ہے۔ اس معاملے پر پارٹی کے اندر بھی اختلافات کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پارٹی کے اندر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے اور احتجاج کی ناکامی کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالی جا رہی ہے۔
ایک بار پھر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں۔
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے جب کہ پنجاب اسمبلی میں پابندی کی قرارداد جمع کرا دی گئی ہے۔
'حکومت پی ٹی آئی میں دراڑ ڈالنا چاہتی ہے'
پاکستان تحریکِ انصاف کی پولیٹیکل کمیٹی اور کور کمیٹی کے رکن سید ذوالفقار علی بخاری کہتے ہیں کہ قانونی طور پر کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگانا بظاہر ناممکن ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کمزور ہوئی ہے مگر اِس کے باوجود حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگاتی ہے تو وہ قانونی جنگ لڑیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے حکومت کو کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ ردِعمل کے طور پر لوگوں میں غصہ مزید بڑھے گا۔
ذلفی بخاری نے الزام لگایا کہ گزشتہ دو سالوں سے حکومت پی ٹی آئی کی توڑ پھوڑ میں شامل ہے۔ کبھی کارکنوں کو اغوا کیا جاتا ہے، کبھی تشدد کیا جاتا ہے اور دیگر حربے استعمال کیے جا رہے ہیں لیکن یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔
'ناکامی کی ذمے داری کوئی نہیں لیتا'
سیاسی مبصرین کی رائے میں ناکامی کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا جب کہ کامیابی کا سہرا سب اپنے سر پر سجاتے ہیں۔
تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ناکامی یا مشکل وقت کے بعد سیاسی جماعتوں میں یہ وقت آتا ہے کہ ایک دوسرے پر تنقید شروع ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے کو ناکامی کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہر بحران کے بعد سیاسی جماعتیں بھی بحران میں چلی جاتی ہیں اور ارکان ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمتِ عملی ٹھیک نہیں ہے۔ جب سے پی ٹی آئی نے اپنے احتجاج اور دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایسی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ خون خرابہ ہو گا اور وہ ہو کر رہا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی چاہتی کیا ہے؟ کیا وہ اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے؟ عمران خان کی رہائی چاہتی ہے؟ یا کوئی اور مقاصد ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس سارے احتجاج کے دوران تحریکِ انصاف اپنا کوئی مطالبہ نہیں منوا سکی بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے تعلقات مزید خراب ہو گئے ہیں۔
ذلفی بخاری کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اختلافات کو اس لیے ہوا دی جا رہی ہے تاکہ 26 نومبر کی شب ہونے والی ہلاکتوں کو چھپایا جا سکے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اِس وقت ایک مشکل وقت سے گزر رہی ہے جس میں سب کو متحد ہونا چاہے۔ جماعت میں اِس وقت کچھ ذمہ داری سے بات کر رہے ہیں جب کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے ہیں۔
خیال رہے تحریک انصاف کے رہنما رؤف حسن نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت پی ٹی آئی اپنے گریبان میں جھانک رہی ہے کہ اُن سے کہاں غلطیاں ہوئیں، پارٹی کو آگے بڑھانے کے لیے نئی قیادت پر سوچا جا رہا ہے۔
اس سے قبل رہنما تحریکِ انصاف شوکت یوسفزئی نے بھی احتجاج کے حوالے سے رابطوں کے فقدان پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
کیا بشرٰی بی بی کو ذمے دار ٹھہرایا جائے گا؟
ذلفی بخاری کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنا اور دھرنا دینا عمران خان صاحب کا فیصلہ تھا جس کی پی ٹی آئی کی پولیٹیکل کمیٹی نے بھی حمایت کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ بشرٰی بی بی نے جو بھی کیا ہے وہ عمران خان صاحب کے احکامات کے مطابق کیا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ جلسے کے بعد پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی اور کور کمیٹی کے ارکان کی عمران خاں صاحب سے ملاقات ہونی ہے جس میں تفصیل سے بات ہو گی۔
سہیل وڑائچ کی رائے میں پی ٹی آئی کے احتجاجی دھرنے کی قیادت کرنا اور کارکنوں کو ڈی چوک تک لانا بشڑی بی بی کی خواہش تھی اور اُنہی کے کہنے پر ایسا کیا گیا تھا۔ لہذا اَب احتجاج کی ناکامی کی ذمہ داری بھی اُنہی کی ہے۔
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو مصالحت اور مذاکرات سے کام لینا چاہیے۔ اِس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ لڑ کر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر پی ٹی آئی نے لچک نہیں دکھائی تو یہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
خیال رہے بشریٰ بی بی کی ترجمان مشال یوسفزئی کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی کے مطابق بانی پی ٹی آئی کے حکم کے مطابق انہیں ڈی چوک پہنچنا تھا لیکن ڈی چوک میں پارٹی قیادت نہیں تھی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ایکس' پر جاری اپنے ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ جو بھی ہوا اس کا احتساب اور جواب طلبی عمران خان کریں گے۔