افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد جب افغان طالبان نے اگست 2021 کے اواخر میں کابل کا کنٹرول سنبھال لیا تو پاکستانی حکام اور عوامی حلقوں کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی یہ کہا کہ افغان عوام نے 'غلامی کی زنجیریں' توڑ دی ہیں۔
افغانستان میں طالبان کے قبضے کے حوالے سے راولپنڈی میں افواجِ پاکستان کے ہیڈکوارٹر سے لے کر اسلام آباد میں طاقت کے ایوانوں میں یہ امید کی جا رہی تھی کہ افغانستان کے سابق حکمرانوں اشرف غنی اور حامد کرزئی کے مقابلے میں افغان طالبان پاکستان نواز ہیں اور وہاں اُن کی حکومت قائم ہونے سے افغانستان میں روپوش کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں سے نمٹنا آسان ہو گا۔
مگر افغان طالبان سے وابستہ یہ تمام امیدیں اُن کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی ختم ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے اب نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی بلکہ حافظ گل بہادر گروپ سمیت نئے تشکیل پانے والے گروہ مسئلہ بنتے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں کالعدم تنظمیوں کی حالیہ کارروائیوں کے بعد اسلام آباد اور کابل کے تعلقات بھی خراب ہوتے جا رہے ہیں جب کہ سرحد پر بھی شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ حافظ گل بہادر گروپ نے ہفتے کو شمالی وزیرستان میں فوج کی ایک چوکی پر خودکش حملہ کیا تھا جس میں دو افسران سمیت سات اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے دو روز بعد پاکستان نے افغان سرزمین پر فضائی کارروائی کی۔
SEE ALSO: افغانستان کے ساتھ مسلح تصادم نہیں چاہتے: وزیرِ دفاع خواجہ آصفپاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران پاکستانی طیاروں کی بمباری کا ذکر کیے بغیر کہا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کے اندر ایک آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو ہدف بنایا جو ٹی ٹی پی کے ساتھ پاکستان میں متعدد حملے کرنے میں ملوث ہیں۔
افغان طالبان کے مطابق پاکستانی طیاروں نے پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس میں خواتین اور بچوں سمیت آٹھ شہری ہلاک ہوئے۔
افغانستان کی حدود میں پاکستان کی جانب سے کیا گیا یہ دوسرا فضائی حملہ ہے۔ اس سے قبل اپریل 2022 میں افغان صوبے کنڑ میں فضائی حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمے داری حکومتِ پاکستان نے باقاعدہ طور پر کبھی قبول نہیں کی۔
پاکستان کا مٔوقف ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر عسکری تنظیمیں کے جنگجوؤں حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ افغان طالبان حملوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہتے ہیں۔
طالبان کیا سوچ رہے ہیں؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان بگڑتے تعلقات کو سمجھنے کے لیے ہم نے حالیہ مہینوں میں افغانستان کے دو دوروں کے دوران وائس آف امریکہ نے کابل اور اسلام آباد کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات کو سمجھنے کے لیے طالبان انتظامیہ کے متعدد عہدیداروں اور حامیوں سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں حکومتی اہلکاروں سے لے کر دو دہائیوں تک شورش میں حصہ لینے والے جنگجو شامل تھے۔
ذرائع ابلاغ سے بات چیت پر ممانعت اور حساس معاملات کی نوعیت کی وجہ سے ان کے نام اس رپورٹ میں شائع نہیں کیے جا رہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر کابل کے عہدیداروں سے بات چیت کے دوران بار بار کالعدم ٹی ٹی پی کا ذکر آتا رہا ہے۔
کابل میں مقیم طالبان انتظامیہ کے ایک اہم عہدے دار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "راولپنڈی میں بیٹھی فوجی قیادت اور اسلام آباد میں بیٹھی سیاسی قیادت اس خطے کے جہادی منظرنامے کو سمجھنے سے قاصر ہے، جس کی وجہ سے وہ کابل میں طالبان انتظامیہ پر ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لینے کے لیے ڈباؤ ڈال رہی ہے۔"
SEE ALSO: کیا افغانستان کے اندر کارروائیوں سے ٹی ٹی پی کے حملے روکے جا سکتے ہیں؟افغان ذمے داران سے بات چیت کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ افغان طالبان میں اس وقت ٹی ٹی پی سے متعلق تین فکر کے حامل گروہ ہیں۔
اول گروہ یہ سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو ان کی تحریک اور عالمی جہادی تحریک کا ایک حصہ ہے۔ یہ گروہ عددی اعتبار سے کافی بڑا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں ٹی ٹی پی کی میزبانی اور قربانیوں کو بھولنے کو تیار نہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر کے اواخر میں جب افغانستان کے صوبہ قندھار کے گورنر ملا شیرین اسلام آباد کے دورے پر تھے تو انہی دنوں ایک افغان ٹی وی پر افغان طالبان کے وزیر مہاجرین خلیل الرحمٰن حقانی نے ایک انٹرویو میں طالبان اور ٹی ٹی پی کے تعلقات کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کیا تھا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ کس طرح ستمبر 2007 میں ٹی ٹی پی کے بانی بیت اللہ محسود نے درجنوں پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کر کے ان کی رہائی کے بدلے انہیں (خلیل حقانی)، طالبان فوج کے موجودہ نائب سربراہ حاجی مالی خان اور ملا عمر کے دست راست ملا اختر عثمانی کو پاکستانی حکومت سے چھڑوایا تھا۔
طالبان میں ٹی ٹی پی کے حوالے سے دوسرے گروہ کی سوچ یہ ہے کہ طالبان انتظامیہ سرکاری طور پر پناہ گزین ٹی ٹی پی کے خاندانوں کی سرپرستی نہ کریں بلکہ انہیں آزادانہ طور پر مہاجرین کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے دیں۔
ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے جنگجو افغانستان کے مشرقی صوبوں کنڑ، ننگرہار اور پکتیکا میں مہاجرین کے طور پر رہ رہے ہیں۔
SEE ALSO: وائٹ ہاؤس: پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات بات چیت کے ذریعے طے کریںالبتہ طالبان اتنظامیہ میں تیسرا گروہ اس سوچ کا حامل ہے کہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی نہ صرف افغان طالبان کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہے بلکہ اس سے پاکستان سمیت چین اور دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔
اس گروپ کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی سے تعلق عالمی سطح پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔
قندھار میں شعبہ پولیس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ "طالبان قیادت اس بات سے خوف زدہ ہے کہ اگر اسلام آباد کے دباؤ میں آ کر ٹی ٹی پی کے خلاف قوت کا استعمال کیا تو اس سے طالبان کی اپنی تحریک منتقسم ہونے کا خدشہ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان قیادت یہ بھی سمجھتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو دولت اسلامیہ یا داعش کی خراساں شاخ میں شامل ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے طالبان انتظامیہ کے لیے مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔
کابل میں مقیم تجزیہ کار تمیم بہیس بھی اس خیال سے متفق نظر آتے ہیں کہ طالبان قیادت اپنی ہی تحریک میں پھوٹ پڑنے کے خدشے کی وجہ سے پاکستان کے دباؤ پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریز کر رہی ہے۔
وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلق ان کے مشترکہ نظریاتی، تاریخی اور ثقافتی روابط پر مبنی ہے۔ یہ تعلق دونوں گروہوں کی اعلیٰ قیادت سے زیادہ، ان کے نچلی اور درمیانی سطح کے جنگجوؤں تک پھیلا ہوا ہے۔
تمیم بہیس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی افغانستان میں حالیہ کارروائی کا بظاہر جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنا لگتا ہے لیکن افغانستان کے عوام اور طالبان رہنما اس کارروائی کو ملک کی جغرافیائی خودمختاری پر حملہ سمھجتے ہیں۔
مذاکرات ہی حل کیوں؟
طالبان عہدیداروں سے بات چیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان قیادت متعدد بار ٹی ٹی پی کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی تجاویز دے چکی ہے۔
کابل میں ایک طالبان رہنما نے بتایا کہ جب ان کے امریکہ سے دوحہ مذاکرت شروع تو طالبان اندرونی طور پر اپنے ہی جنگجوؤں کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار تھے۔ لیکن "دنیا نے دیکھا کہ کامیاب مذاکرات کی وجہ سے امریکہ کا افغانستان سے انخلا ہوا اور افغانستان میں امن قائم ہوا۔"
انہوں نے کہا کہ طالبان انتظامیہ کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کی ہی سرپرستی میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے پاکستان سے علما اور قبائلی عمائدین کے دو وفود افغانستان آئے مگر پاکستان کی عسکری قیادت کی پالیسی میں تبدیلی کے بعد تمام کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔
SEE ALSO: خارجہ اُمور اسحاق ڈار کے سپرد: 'کسی کیمپ کا حصہ نہ بننے کی پالیسی جاری رہے گی'عبیداللہ بحیر ایک تجزیہ کار اور امریکن یونیورسٹی آف افغانستان میں مدرس رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’طالبان انتطامیہ پاکستان حکومت کو متعدد بار مذاکرات کے ذریعے ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل کرنے کی تجویز دے چکی ہے مگر پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین پر کارروائیوں سے طالبان انتظامیہ کی ثالث بننے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ افغانستان سے تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فضائی کارروائی کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے سامنے آمنے والے بیانات میں 'کچھ عناصر' کو حالات خراب کرنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ان بیانات سے لگتا ہے کہ دونوں ملک تناؤ ختم کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان نے افغانستان میں "طالبان حکمرانوں میں موجود کچھ عناصر" کو ٹی ٹی پی کی سرپرستی اور انہیں پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے معاملات سے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اشارہ افغان طالبان ہی کے حقانی نیٹ ورک کی جانب ہے جن کے سربراہ اور وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی پر پاکستانی کالعدم تنظیموں کی حمایت کا الزام ہے۔
دوسری جانب طالبان اتنظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی فوج میں موجود 'کچھ جنرلز' افغانستان کے خلاف دشمنی پر مبنی پالیسی اپنا رکھی ہے۔