بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں گزشتہ چار ماہ سے جاری قبائلی تنازع تاحال جاری ہے۔ حکام کے مطابق اب تک دونوں جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کے باعث نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت راہگیروں کی ہے۔
وڈھ میں جاری کشیدگی کے باعث بازار ویران ہیں۔ اسکول اور اسپتال بند ہیں جب کہ گزشتہ چار ماہ سے کرفیو جیسا ماحول ہے۔
قلات ڈویژن کے ایک اعلٰی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وڈھ میں فریقین کی جانب سے تاحال ایک دوسرے پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔
اُن کے بقول اب تک چار افراد کی ہلاکت کے مقدمات درج ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ وڈھ میں جاری تنازع کے باعث انتظامیہ کو متعدد بار کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو وڈھ کے مقام پر بلاک کرنا پڑا جس کا مقصد مسافروں کو جانی اور مالی نقصان سے بچانا ہے۔
وڈھ بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک تحصیل ہے جو کوئٹہ شہر سے تقریباً 368 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
وڈھ میں مینگل قبیلے کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے قائد سردار اختر جان مینگل کی آبائی رہائش گاہ ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ وڈھ میں زمین کا تنازع ہے۔ کاغذات میں یہ زمین اختر مینگل کے والد عطاء اللہ مینگل اور ان کے خاندان کے نام پر ہے۔ تاہم میر شفیق مینگل اور ان کے قبائل نے وہاں مبینہ طور پر قبضہ کر رکھا ہے جو تنازع کی بنیادی وجہ ہے۔
وڈھ تنازع حل کی جانب کیوں نہیں بڑھ رہا؟
شہزادہ ذوالفقار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وڈھ تنازع حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے طول پکڑ رہا ہے۔
شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ اگر انتظامیہ چاہے تو یہ مسئلہ فوری حل ہو سکتا ہے۔ انتظامیہ علاقے کی خراب صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایف سی کو بھی طلب کر سکتی ہے یہ معاملہ ایک دن میں حل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دورِ حکومت میں سابق صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو اور قبائلی و سیاسی رہنما چیف آف ساروان نواب اسلم رئیسانی نے معاملے پر ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔
دونوں رہنماؤں کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ایک فریق یعنی سرادر اختر جان مینگل مان رہے ہیں لیکن دوسرا فریق میر شفیق مینگل نہیں مان رہے۔
انہوں نے کہا کہ وڈھ میں فائرنگ کے باعث روزانہ روڈ بند ہوتا ہے اور کوئٹہ کراچی سفر کرنے والے مسافر ہزاروں مسافروں کی جان و مال کو خطرہ ہے۔
وڈھ تنازعہ: مصالحتی کمیٹی کیا کہتی ہے؟
مصالتی کمیٹی کے ممبر نوابزادہ لشکری رئیسانی کہتے ہیں کہ بہت سے تنازعات میں ریاست خود فریق بن گئی ہے۔
نوابزادہ لشکری رئیسانی کے بقول بہت سے تنازعات کو قبائلی تنازع کا نام دیا جاتا ہے تاہم پس پردہ ان میں ریاست کا ہاتھ بھی ہوتا ہے۔
اُن کے بقول ہم اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ مصالحتی کمیٹیوں کو مکمل اختیارات ملیں تاکہ ہم مکمل جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہوں۔
Your browser doesn’t support HTML5
لوگ نقل مکانی پر مجبور
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ڈرون کیمرے سے لی گئی وڈھ شہر کے ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہر ویران ہے۔ تمام دکانیں بند ہیں اور لوگوں کے مکان بھی خالی ہیں۔
ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وڈھ شہر میں گزشتہ چار ماہ سے جاری کشیدہ صورتِ حال کے باعث آدھی سے زائد آبادی کراچی، حب چوکی، کوئٹہ اور خضدار نقل مکانی کر چکی ہے۔
ان کے بقول بازار کی بندش کے باعث علاقے میں لوگوں کے پاس گھر کا راشن بھی ختم ہو گیا ہے۔
دوسری جانب دیہاڑی داڑ طبقے کے گھروں میں فاقہ کشی کی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہونے کے باعث طلبہ کا تعلیمی سال بھی ضائع ہو رہا ہے۔
سردار اختر مینگل کا مؤقف
وڈھ میں جاری گشیدگی کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وڈھ میں جاری صورتِ حال آج کی نہیں بلکہ یہ مسئلہ عرصہ دراز سے چلا آ رہا ہے۔
سردار اختر نے کہا کہ گزشتہ 20 برسوں سے یہ گشیدگی صرف وڈھ میں نہیں بلکہ پورے بلوچستان میں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا سینٹر پوائنٹ وڈھ ہے۔
اختر مینگل کا الزام ہے کہ ان کے مخالفین نے وڈھ کے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ علاقے میں روزانہ لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے اور بھتہ خوری عام ہے۔
کالعدم تنظیموں کے ذریعے ہمارے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا'
دوسری جانب جھالان عوامی پینل کے سربراہ میر شفیق الرحمان مینگل کا دعویٰ ہے کہ ان کے مخالف سردار اختر مینگل نے وڈھ شہر میں ان کی آبائی جائیداوں، دکانوں اور ہوٹلوں پر قبصہ کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 18 برس قبل بھی مصالحتی کمیٹی ہمارے پاس آئی اور کامیاب مذاکرات کے بعد جنگ بندی کی گئی مگر آج 18 سال گزرنے کے باوجود وہ زبان دے کر بھاگ گئے۔
SEE ALSO: افغانستان میں دہشت گرد تنظیمیں خطے میں کن مسائل کو جنم دے رہی ہیں؟میر شفیق الرحمان مینگل نے الزام عائد کیا ہے کہ 2008 سے سردار اختر مینگل نے مختلف کالعدم تنظیموں کے ذریعے ہمارے لوگوں کو نشانہ بنایا۔
اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کے 180 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں جب کہ سینکڑوں نجی جیلوں میں ہیں۔
حکومت کیا کر رہی ہے؟
نگراں وزیر داخلہ بلوچستان میر محمد زبیر جمالی نے وڈھ تنازعہ پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وڈھ میں کشیدہ صورتِ حال کے خاتمے کے لیے بلوچستان حکومت سیاسی و قبائلی رہنماؤں کے ساتھ مل کر اقدامات کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وڈھ تنازع کو حل کرنے کے لیے کمیٹی بنائی گئی جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنر خضدار کررہے ہیں امید کی جا رہی ہے کہ جلد ہی اس مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا۔