انسانی حقوق کے علمبرداروں نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے کشیدگی کے شکار تبتی افراد اور سنکیانگ کے خطوں میں بسنے والی اقلیتوں کے بارے میں چین کے رویے پر دباؤ میں اضافہ کرنا خوش آئند ہے۔
چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ کے مسلمان اور ایغور نسل کی آبادی سمیت چین کے ہمالیائی خطے میں تبتی نسل کے لوگ گزشتہ نصف صدی کے دوران عبادت کی آزادی اور اپنی مقامی ثقافت کے اظہار کے لیے کمیونسٹ حکومت سے مطالبات کرتے آ رہے ہیں۔
جلا وطن ایغور گروپوں کی تنظیم کے ترجمان دلجات رست کا کہنا ہے کہ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) میں جاری انسانی بحران پر توجہ مبذول کرنا امریکہ کے قومی مفاد میں ہے اور ساتھ ہی امریکی اقدار اور روایات کی پاسداری کا ضامن ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں کہیں بھی نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم سرزد ہوتے ہیں، جیسا کہ ایغور آبادی کے ساتھ ہو رہا ہے، ایسی صورت میں لوگ ہمیشہ امریکہ کی جانب دیکھتے ہیں کہ وہ کوئی اقدام اٹھائے۔
دلجات رست کے بقول ''دیگر لبرل جمہوری ملکوں کی طرح امریکہ ہمیشہ مظلوم مذہبی یا نسلی گروہوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، جو کہتا ہے کہ اب 'ایسا نہیں ہوگا' چاہے معاملہ 'ہولوکاسٹ' جیسے جرائم کا ہو یا اب ایغوروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظالمانہ رویے کا۔"
SEE ALSO: امریکہ: صدر بائیڈن نے ایغور قیدیوں کی جبری مشقت سے بنی چین کی اشیا پر پابندی عائد کر دیایشیائی سمندری علاقوں میں چین کے بڑھتے ہوئے توسیعی عزائم اور جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں کاپی رائٹس کی چوری کے معاملوں پر تقریباً چار سالوں سے امریکی عہدے دار چین کے ساتھ تجارتی تنازع میں الجھے ہوئے ہیں۔
متعدد غیر ملکی حکومتیں اور انسانی حقوق کے داعی یہی مؤقف رکھتے ہیں کہ چین نے 10 لاکھ سے زائد ایغور افراد کو حراستی مراکز میں قید رکھا ہوا ہے۔ ان حراستی مراکز کے لیے چین دعویٰ کرتا ہے کہ یہ'پیشہ ورانہ تعلیمی مراکز' ہیں جن کا مقصد مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گرد حملوں کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تبت جو نسلی طور پر غیر چینی علاقہ ہے جس پر چین نے سال 1951ء میں قبضہ کر لیا تھا، ان علاقوں میں چین بودھ مت کی خانقاہوں پر کنٹرول میں اضافہ کرتا جا رہا ہے اور وہاں مقامی زبان کے بجائے چینی زبان کو تعلیم کا ذریعہ بنا رہا ہے۔
چین کی حکومت کی مذکورہ پالیسیوں کے ناقدین کو عام طور پر حراست میں لے لیا جاتا ہے، جنہیں طویل مدت قید میں رکھنا بھی عام سی بات ہے۔
گزشتہ پانچ برس کے دوران امریکہ ہانگ کانگ میں چین کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے معاملے پر اور تائیوان کی فضائی حدود پر پیپلز لبریشن آرمی کی 'غیر قانونی' پروازوں کے خلاف آواز بلند کرتا رہا ہے۔
چین پر دباؤ میں اضافہ
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ چین کی سرپرستی میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپک گیمز کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے ایغوروں کے ساتھ چین کے روا رکھے جانے والے رویے کا حوالہ دیا تھا۔
صدر بائیڈن نے پارلیمان سے منظور ہونے والے ایک بل پر 23 دسمبر کو دستخط بھی کیے ہیں جو ایغوروں کو جبری مشقت سے بچانے سے متعلق ہے۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو واضح کر دیا جائے کہ سنکیانگ کی جبری مشقت کے کیمپوں میں تیار کردہ مصنوعات کو امریکی منڈیوں میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔
دوسری جانب چین امریکی اقدامات کو دوسرے زاویے سے دیکھتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح چینی عہدے دار حقیقت سے پردہ اٹھنے کے معاملے کو مسترد کرتے رہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ چین کے مغربی خطوں کے بارے میں امریکی ردعمل اس کے داخلی امور میں مداخلت کے مترادف ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے، 'شنہوا' نے سنکیانگ کے خلاف پابندی کے امریکی قانون کی منظوری کی مذمت کی ہے۔ شنہوا نے اسے ''جھوٹ کا پلندہ'' قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے نے کہا ہے یہ چین کے داخلی معاملات میں بے جا مداخلت کی ایک کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، جو ہر معاملے میں اپنی بات منوانے پر مصر ہے۔
بائیڈن پر دباؤ؟
تائیوان کے دارلحکومت تائی پے میں قائم شنگ چی قومی یونیورسٹی میں سفارت کاری کے پروفیسر ہوانگ کوائی بو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بائیڈن کی جانب سے تبت اور سنکیانگ پر دھیان مرکوز کرنا روایتی امریکی پالیسی کے عین مطابق ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق امریکی گروہوں کی جانب سے داخلی طور پر لابنگ کے نتیجے میں یہ معاملات منظر عام پر زور شور کے ساتھ نمودار ہوئے ہوں۔
پروفیسر ہوانگ کوائی بو نے کہا ہے کہ ''یہ کہنا کہ داخلی امور میں مداخلت نہ کی جائے، میرے خیال میں چین کا یہ حالیہ انداز انتہائی جابرانہ ہے۔"
ادھر تبت کو ہدف بناتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے 20 دسمبر کو عذرا ضیا کو تبت کے امور پر امریکہ کی خصوصی رابطہ کار تعینات کیا ہے۔ عذرا ضیا نائب امریکی وزیرِ خارجہ ہیں جو مقامی انڈین امریکی آبادی کے انسانی حقوق سے متعلق امور کی نگرانی پر مامور ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے معاملے پر خاص نگاہ رکھتے ہوئے، امریکی خصوصی رابطہ کار تبت کی آبادی کے انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے کی جانے والی کوششوں پر خصوصی نظر رکھیں گی، تاکہ تبتی آبادی کی مخصوص مذہبی، لسانی اور ثقافتی شناخت کو تحفظ دینے میں مدد فراہم کی جا سکے۔
دسمبر کے اوائل میں قانون سازوں نے بائیڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تبت کے روحانی پیشوا دلائی لاما سے مل کر تبتی آبادی کے حقوق سے متعلق اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔