ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آغاز سے ہی انگلش تماشائیوں نے اپنے وکٹ کیپر بیٹسمین جوس بٹلر سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن سری لنکا کے خلاف میچ میں وہ ناقابلِ شکست سینچری اسکور کریں گے، یہ ان کے سب سے بڑے سپورٹر کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا۔
سابق چیمپئن سری لنکا کے خلاف پیر کو کھیلے جانے والے میچ میں انگلش وکٹ کیپر نے صرف 67 گیندوں پر چھ چھکوں اور اتنے ہی چوکوں کی مدد سے 101 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
کپتان این مورگن کے ساتھ چوتھی وکٹ کی شراکت میں انہوں نے 112 رنز جوڑ کر انگلش ٹیم کو ایک کمزور پوزیشن سے مضبوط اسکور تک پہنچایا۔
جوس بٹلر کی شاندار سینچری نے جہاں انگلش مداحوں کو خوش کیا، وہیں وہ ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں سینچری اسکور کرنے والے تیسرے، اور انگلینڈ کے پہلے وکٹ کیپر بلے باز بن گئے ہیں۔
اس سے قبل نیوزی لینڈ کے برینڈن مکلم اور پاکستان کے محمد رضوان یہ سنگ میل پہلے ہی عبور کرچکے ہیں۔
اس میگا ایونٹ میں جوس بٹلر سمیت دیگر وکٹ کیپر بلے بازوں کی کارکردگی کے بعد کئی ماہرین نے وکٹ کیپر بیٹسمین کو کھیل کا نیا آل راؤنڈر قرار دینا شروع کر دیا ہے، جو بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ میں بھی اپنی ٹیم کا ساتھ دیتے ہیں۔
وکٹوں کے پیچھے ان کی کارکردگی جہاں بالرز کا جوش بڑھاتی ہے، وہیں بطور ایک مستند بلے باز وہ اپنے کوچ اور کپتان کو ایک اور اضافی کھلاڑی فائنل الیون میں شامل کرنے کا موقع بھی دیتے ہیں۔
ویسے تو انٹرنیشنل کرکٹ میں آسٹریلیا کے ایڈم گلکرسٹ اور نیوزی لینڈ کے برینڈن مکلم سمیت کئی وکٹ کیپر اننگز کا آغاز کر چکے ہیں، لیکن اس ورلڈ کپ میں چار ایسے میچز کھیلے گئے ہیں جس میں دونوں ٹیموں کا آغاز وکٹ کیپر بلے بازوں نے کیا ہو۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں اب تک ٹاپ اسکوررز کی بات کی جائے تو پہلے تین میں سے دو نمبروں پر وکٹ کیپر بلے باز ہیں۔ ٹورنامنٹ کی واحد سینچری اسکور کرنے والے بھی وکٹ کیپر اور سب سے بڑی فتح کا بھی ٹاپ اسکورر ایک وکٹ کیپر ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انگلینڈ کے جوس بٹلر اور پاکستان کے محمد رضوان دو ایسے وکٹ کیپر بلے باز ہیں جن کی کیپنگ اور بلے بازی پر ٹیم کی فتح یا شکست کا دار و مدار ہوتا ہے۔
SEE ALSO: ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: سپر 12 مرحلے کے 12 اہم ترین کھلاڑی کون؟ایونٹ میں اب تک انگلینڈ نے چار میچز کھیلے جس میں جوس بٹلر کے 214 رنز نے انگلش ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ تین اننگز میں ناقابلِ شکست رہنے والے وکٹ کیپر بیٹسمین نے تقریباً 154 کے اسٹرائیک ریٹ اور 214 کی اوسط سے ایک سینچری اور ایک نصف سینچری اسکور کی۔
اسی طرح پاکستان کے محمد رضوان نے بھی تین میچز کھیل کر 121 کے اسٹرائیک ریٹ اور 60 کی اوسط سے 120 رنز اسکور کیے ہیں۔ سری لنکا کے کوشال پریرا، افغانستان کے محمد شہزاد، جنوبی افریقہ کے کوئنٹن ڈی کوک اور نمیبیا کے زین گرین نے بھی اپنی اپنی ٹیم کے لیے اننگز کا آغاز اور وکٹوں کا دفاع کیا۔
محمد شہزاد نے نمیبیا کے خلاف ایک میچ میں 33 گیندوں پر 45 رنز بنا کر ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تو دوسری جانب کوشال پریرا کے 25 گیندوں پر 35 رنز بھی ٹیم کو آسٹریلیا کے خلاف شکست سے نہ بچاسکے۔
مستند بلے بازوں جیسی کارکردگی دکھانے والے وکٹ کیپرز
ایونٹ میں اگر بھارتی ٹیم کو کوئی بلے باز مشکلات سے نکال سکتا ہے تو وہ وکٹ کیپر رشبھ پنت ہیں۔ وہ نہ صرف وکٹوں کے پیچھے شکار کرتے ہیں بلکہ اگر انہیں کوئی باہر جاتی گیند مل جائے تو وکٹوں کے آگے بھی اس کا شکار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایونٹ میں اب تک دو میچز کھیل کر صرف 51 رنز بنائے ہیں، لیکن اگلے تین میچز میں ان سے بہترین کارکردگی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
آسٹریلیا کے میتھیو ویڈ نے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں نچلے نمبروں پر بیٹنگ کرتے ہوئے ناقابل شکست 15 رنز بنائے، جس کی وجہ سے ان کی ٹیم میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
ویسٹ انڈیز کے نکولس پورن اب تک تین میچوں میں صرف 53 رنز بنا سکے ہیں اور وہ شائقین کی امیدوں پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
بنگلہ دیش کے نور الحسن پانچ میچز میں پانچ شکار کے ساتھ میتھیو ویڈ اور میتھیو کراس کے ساتھ ٹاپ وکٹ کیپر تو ہیں لیکن یہ سارے شکار انہوں نے کوالی فائنگ مرحلے میں کیے۔ سپر 12 مرحلے میں انہوں نے دو میچز کھیلے جب کہ تیسرے میچ میں لٹن داس کو ایک مرتبہ پھر گلوز پہن کر میدان میں اترنا پڑا۔
اسکاٹ لینڈ، انگلینڈ، سری لنکا اور عمان سمیت پانچ ٹیموں کے خلاف بطور اوپنر اننگز کا آغاز کرنے والے لٹن داس کو ان کی ناقابل اعتبار فیلڈنگ کی وجہ سے کپتان محموداللہ نے انہیں ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں وکٹ کیپنگ کی ذمے داری دی تھی۔
وہ بلے باز جو وکٹ کیپنگ بھی کرسکتے ہیں
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شامل ہر ٹیم کے پاس ایک متبادل وکٹ کیپر موجود ہے جو زخمی ہونے کی صورت میں مستقل وکٹ کیپر کی جگہ میدان میں آسکتا ہے۔
پاکستان کے پاس سرفراز احمد اور آسٹریلیا کے پاس جوش انگلس جیسے اچھے وکٹ کیپر ہیں جو کسی بھی ٹیم میں بطور بلے باز کھیلنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
جنوبی افریقی ٹیم کے سابق کپتان کوئنٹن ڈی کوک نے جب ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ سے قبل بورڈ کے کہنے پر گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا تو اس میچ میں ان کی جگہ وکٹ کیپنگ کے فرائض ہینریچ کلاسن نے انجام دیے۔
اسی طرح بھارت کے خلاف میچ میں نیوزی لینڈ کے اس سال کے سب سے کامیاب کیوی بلے باز ڈیون کونوے کو مستقل وکٹ کیپر ٹم سیفرٹ کی جگہ بطور وکٹ کیپر کھلایا گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیش کے مشفق الرحیم جو ایونٹ میں اب تک چھ میچز میں 117 اعشاریہ دو ایک کے اسٹرائیک ریٹ سے 143 رنز بناکر کامیاب بلے باز ہیں، وہ بھی کچھ عرصہ قبل تک ٹیم کے مستقل وکٹ کیپر تھے۔