امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دورِ اقتدار کے دوران مشرقِ وسطیٰ پالیسی کو بہت اہمیت دی گئی۔ اس دوران جہاں اسرائیل کے ساتھ مختلف عرب ممالک کے تعلقات استوار ہوئے وہیں امریکہ نے ایران کے حوالے سے سخت پالیسی اپنائی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں عرب، اسرائیل تعلقات میں اتنی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آئی جتنی گزشتہ چار برسوں میں دکھائی دی۔
البتہ، بعض تجزیہ کاروں کے مطابق بائیڈن مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی میں تبدیلیاں کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے دور میں بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کیے جب کہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ مزید مسلم ممالک اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے خفیہ دورۂ سعودی عرب کی خبریں بھی گردش کرتی رہی تھیں۔ اگرچہ سعودی ذرائع نے اس خبر کی تردید کر دی تھی۔ تاہم اب بھی سعودی عرب اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے روابط پر چہ مگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول ایران کے حوالے سے اسرائیل اور سعودی عرب کے مؤقف میں یکسانیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ملک اس معاملے پر قریب آ سکتے ہیں۔
ٹرمپ دور میں امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرتے ہوئے دیگر ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ بھی ایسا کریں۔
مشرقِ وسطیٰ امور کے ماہر اور سینئر صحافی راشد حسین سید کے مطابق سابق صدر براک اوباما کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے سعودی حکمران شاہ سلمان کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے جب کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ساتھ اُن کے تعلقات میں بھی زیادہ گرم جوشی نہیں تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں اپنے داماد جیرڈ کشنر کے ذریعے سعودی عرب اور اسرائیلی حکمرانوں کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات استوار کیے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے معاملے میں اگر کسی نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحیح معنوں میں بچایا تو یقینی طور پر وہ صدر ٹرمپ ہی تھے۔
یاد رہے کہ سعودی طرزِ حکمرانی کے بڑے ناقد جمال خشوگی اکتوبر 2018 میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں بعض دستاویزات کی تصدیق کے لیے گئے تھے جس کے بعد وہ لاپتا ہو گئے۔
بعدازاں خشوگی کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی اور مغربی میڈیا اور کئی ممالک نے اس کا ذمہ دار محمد بن سلمان کو ٹھیرایا تھا۔ البتہ محمد بن سلمان اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔
راشد حسین کے مطابق امریکہ کے اندر دباؤ کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمال خشوگی کے معاملے پر محمد بن سلمان پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالا۔ لہذٰا امکان یہی ہے کہ جمال خشوگی کے معاملے پر بائیڈن کی پالیسی ٹرمپ سے مختلف ہو گی۔
راشد حسین سید کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں عرب اور اسرائیل اتنے قریب آ گئے جس کا اس سے قبل تصور تک ممکن نہیں تھا۔
اُن کے بقول ریاستوں کی سطح پر تو اسرائیل کے بعض عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم ہو گئے ہیں۔ تاہم ان ممالک کے عوام میں اب بھی اسرائیل کے خلاف رائے موجود ہے اور جب تک تنازع فلسطین کا مستقل حل نہیں نکل آتا۔ خلیجی ممالک کے عوام دل سے اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔
راشد حسین سید سمجھتے ہیں کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کے لیے مشرقِ وسطیٰ پالیسی ایک بڑا چیلنج ہو گی۔ تاہم وہ ابتداً اپنی زیادہ توجہ داخلی اُمور پر مرکوز رکھیں گے۔
راشد حسین کے بقول خاص طور پر کیپٹل ہل کی ہنگامہ آرائی کے بعد امریکی معاشرے میں سامنے آنے والی تقسیم اور عوام کو متحد رکھنا بائیڈن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
امریکہ میں لامار یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت سے منسلک اور امریکی امور کے ماہر پروفیسر اویس سلیم کا کہنا ہے کہ لوگ عمومی طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں آئیں گے تو وہ اوباما دور کی خارجہ پالیسی بحال کر دیں گے۔
اُن کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ اوباما کئی پالیسی معاملات پر بائیڈن کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔ کیوں کہ بائیڈن چار دہائیوں سے امریکی سیاسی منظر نامے اور عالمی سطح پر سرگرم اور خارجہ پالیسی کے اُمور پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اویس سلیم کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ بائیڈن، اوباما دور کی خارجہ پالیسی ہی برقرار رکھیں بلکہ وہ ایک آزاد اور نئی خارجہ پالیسی بھی سامنے لا سکتے ہیں۔
اویس سلیم نے مزید بتایا کہ گزشتہ چار برسوں کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو صدر ٹرمپ نے خارجہ اور داخلی پالیسیاں اپنے آپ کو مرکزِ نگاہ رکھ کر تشکیل دیں۔
اویس سلیم کے بقول صدر ٹرمپ کا یہ خیال تھا کہ وہ پوری دنیا کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پروفیسر اویس سلیم نے مزید واضح کیا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کی اہمیت ضرور ہے اور اسے کوئی بھی حکمران نظر انداز نہیں کر سکتا۔ لیکن جس حد تک صدر ٹرمپ چلے گئے تھے۔ یقیناً بائیڈن اس میں توازن اور اعتدال لانے کی کوشش کریں گے۔
اُن کے بقول بائیڈن دور میں امریکہ، ایران کے ساتھ اوباما دور میں طے پانے والے جوہری معاہدے میں واپس آ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس سے دست بردار ہو گئے تھے جس پر اس معاہدے کے ضامن یورپی ممالک نے تنقید کی تھی۔
پروفیسر اویس سلیم کہتے ہیں کہ امریکہ جیسے ممالک میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ کسی ایک شخص کے چلے جانے سے اس کی ساری پالیسیاں یکسر بدل دی جائیں۔ تاہم وہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن کی پالیسی میں جارحانہ عنصر نہیں پایا جائے گا۔
امریکی امور کے ماہر نے بتایا کہ وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ جو بائیڈن کے لیے صدر ٹرمپ بہت زیادہ چیلنجز چھوڑ کر جا رہے ہیں تاہم وہ امریکی سینیٹ میں اپنے وسیع تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے اچھے طریقے سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔
پروفیسر راشد حسین کا مزید کہنا تھا کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اینٹنی بلنکن کو وزیرِ خارجہ نامزد کیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی حکمتِ عملی ہرگز جارحانہ نہیں ہو گی۔ کیوں مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے بلنکن کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو وہ محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کو فروغ دینے کے قائل ہیں۔