|
حکومتِ پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کی تعمیر میں شامل پاکستانی کمپنیز کے لیے امریکی پابندیوں سے استثنیٰ کی درخوست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ہم امریکی پابندیوں سے استثنیٰ مانگیں گے۔ پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکہ سے اس معاملے پر استثنٰی مانگ تو سکتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتِ حال میں اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ پاکستان کو یہ استثنٰی ملے گا۔
وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں کہا تھا کہ حکومت لابنگ سمیت متعلقہ فورمز پر تیکنیکی، سیاسی اور اقتصادی بنیادوں پر استثنیٰ کی کوشش کرے گی۔
انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ایران کے ساتھ معاہدے کی ذمہ داریوں کی تعمیل کرتے ہوئے اس منصوبے پر جلد تعمیر شروع ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے دیگر ممالک کو ایران کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیر پیٹرولیم کا یہ مؤقف دفترِ خارجہ کے اس مؤقف سے مختلف ہے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے لیے کسی تیسرے فریق کی اجازت کی ضرورت نہیں۔
حالیہ دنوں میں یہ معاملہ اس وقت زیرِ بحث آیا ہے جب امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو نے کانگریس میں اپنی گواہی کے دوران کہا تھا کہ واشنگٹن پائپ لائن کی تعمیر روکنے کے لیے پرعزم ہے۔
ڈونلڈ لو نے بتایا کہ اسلام آباد نے اس ضمن میں امریکی پابندیوں سے استثنیٰ کی کوئی درخواست نہیں دی۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مصدق ملک نے گیس کمپنیوں کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے کی درخواست پر حکومت کے تحفظات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر مصدق نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ ایران کے ساتھ معاہدے کی ذمے داریوں کی تعمیل کرتے ہوئے اس منصوبے پر جلد تعمیر شروع ہو جائے گی۔
پاکستان میں پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاملہ نگراں حکومت کے دور میں زیادہ ابھر کر سامنے آیا جب نگراں حکومت نے اس منصوبے پر کام شروع کرنے کے حوالے سے پیش رفت کا اعلان کیا تھا۔ لیکن امریکی پابندیوں سے استثنیٰ کی درخواست دائر نہیں کی گئی تھی۔
'پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے'
تجزیہ کار فرحان بخاری کہتے ہیں کہ "حکومت نے پہلے ہی اس معاملے میں بہت زیادہ تاخیر کی ہے۔ حکومت کی خواہش اپنی جگہ لیکن مجھے اس میں بہت زیادہ کامیابی ملتی نظر نہیں آ رہی۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایک عرصے سے اس پر بات کی جا رہی ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی۔
اُن کے بقول اب حکومت درخواست دائر کرنے جا رہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ میں یہ الیکشن کا سال ہے اور اگر آئندہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے تو وہ ایران سے متعلق سخت مؤقف کی وجہ سے کوئی رعایت نہیں دیں گے۔
اُن کے بقول اس کے علاوہ پاکستان کی ساکھ بھی موجودہ حالات میں خاصی کمزور ہے۔ پاکستان سابق صدر مشرف کے دور میں اس پوزیشن میں تھا کہ وہ اپنی باتیں منوا لیتا تھا۔ لیکن اب پاکستان خاصی کمزور پوزیشن میں ہے جہاں پاکستان کو اپنی بات منوانا خاصا مشکل ہے۔
فرحان بخاری کے بقول غزہ کی صورتِ حال کی وجہ سے بھی ایران پر ہر معاملے میں شک کیا جاتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی طرف سے استثنیٰ تو مانگا جا رہا ہے لیکن یہ پاکستان کو مل سکتا ہے یا نہیں، اس بارے میں ابھی کوئی پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ قدرتی گیس کی فراہمی شہروں میں صرف ایک چوتھائی آبادی تک محدود ہے جب کہ 70 فی صد سے زیادہ دیہی آبادی کو قدرتی گیس تک رسائی نہیں ہے۔
اس وقت پاکستان میں تقریباً 99 فی صد آبادی بجلی سے منسلک ہے۔ اس لیے حکومت کو قدرتی گیس کو مؤثر پاور پلانٹس کی طرف موڑ کر بجلی کی لاگت میں کمی کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔
'منصوبہ پاکستان کے لیے اہمیت کا حامل ہے'
ایل پی جی ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن کے چیئرمین عرفان کھوکھر کہتے ہیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی تکمیل تک پاکستان میں سستی گیس یا سستی بجلی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
اُن کے بقول حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ فوری طور پر اس بارے میں عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور اس بات کو ممکن بنائے کہ پاکستان کو یہ استثنیٰ ملے اور پاکستان یہ منصوبہ مکمل کرے۔
ماہرین کے مطابق پاک ایران گیس پائپ لائن پر پاکستان کو دہری مشکلات کا سامنا ہے کیوں کہ اگر ایران اس معاملے پر ثالثی کے لیے آگے بڑھتا ہے تو پاکستان کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایران کی جانب سے جرمانے سے بچنے کے لیے نگراں حکومت نے گزشتہ ماہ 158 ملین ڈالر کے تخمینے سے ایرانی سرحد سے گوادر تک پھیلی گیس پائپ لائن کے 80 کلومیٹر حصے کی تعمیر شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس منصوبے کو انٹر اسٹیٹ گیس سسٹمز (پرائیویٹ) لمیٹڈ (آئی ایس جی ایس) کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا جو پیٹرولیم ڈویژن کا ایک ادارہ ہے۔