” میں اب تک پر امید ہوں، میں اس وقت تک امید کا دامن نہیں چھوڑوں گا جب تک اپنے بیٹے کی لاش نہیں دیکھ لو ں گا، مجھے اب بھی امید ہے کہ میں اسے دیکھوں گا اور اس کی آواز سنوں گا۔”
یہ الفاظ تھے شمالی افریقہ سے اٹلی جانے والے تارکین وطن کے ڈوبنے والے جہاز کے ایک لاپتہ نوجوان عبدالرحمان کے والد محمد زیاب کے ۔
عبد الرحمان ان بہت سے دوسرے لوگوں میں شامل تھے، جو ماہی گیری کے لئے استعمال ہونے والے اس خستہ حال جہاز میں سوار ہوئے، جو دو مہینے پہلے چودہ جون کو وسطی بحیرہ روم میں ڈوب گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس جہاز میں لیبیا سے اٹلی جانے والے 500 سے 700 تارکین وطن سوار تھے، جن میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان ، شام اورمصر سے تھا ۔
صرف 104 لوگوں کو سمندر سے زندہ بچایا گیا تھا جو سب ہی مرد اور لڑکے تھے۔ 82 نعشیں سمندر سے نکالی گئی تھیں جن میں سے صرف ایک خاتون کی تھی ۔ باقی بد قسمت مسافر، جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے، بحیرہ روم کے سمندر میں ایسے مقام پر ڈوبے ، جہاں سمندر کی گہرائی تقریباً 4000 میٹر ہے۔ جس کا مطلب اگر جہاز میں پانچ سو تارکین وطن بھی سوار تھے، تو 314 مسافروں کا سمندر کے اس حصے سے نشان تک نہیں ملا۔
سانحوں میں متاثرین کی شناخت سے متعلق یونان کی ٹیم کے پولیس کمانڈر Lt. Col. Pantelis Themelis نے ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ 7 اگست تک ملنے والی نعشوں میں سے لگ بھگ 40 کی شناخت ڈی این اے تجزیے ، دانتوں کے ریکارڈ، فنگر پرنٹنگ او ر زندہ بچ جانے والوں اور رشتے داروں کے انٹرویوز کے ایک ملے جلے تفصیلی عمل کے ذریعے ہوئی۔
پولیس کمانڈر تھیملیس نے بتایا کہ یہ کام اس لیے پیچیدہ اور سست ہو گیا کہ اس بارے میں معلومات کافقدان ہے کہ اس جہاز پر کون کون سوار تھا اور اس وجہ سے بھی کہ اس پر سوار بہت سے لوگو ں کا تعلق ایسے ملکوں سے تھا جہاں جنگ اور خانہ جنگی کی وجہ سے رشتے داروں کے لیے ڈی این اے کے نمونوں کی فراہمی مشکل ہو رہی ہے ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان شناخت کے عمل میں مدد کے لیے پہلے ہی سینکڑوں ڈ ی این اے ٹیسٹوں کے نتائج بھیج چکا ہے ۔ جن ملکوں میں قریبی رشتے داروں کے انٹر ویوز اور ڈی این اے اکٹھا کرنا مشکل ہے وہاں ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ یہ کام کر رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کے لیے جو اب بھی گمشدہ رشتہ داروں کی تلاش میں ہیں، دفن کرنے کے لیے لاش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی امید رکھتے ہیں کہ شاید ان کا عزیز زندہ ہو۔
ان بہت سے لوگوں میں شامل لبنان کے ایک پناہ گزین کیمپ کے رہائشی محمد زیاب جن کا 21 سالہ بیٹا عبدل رحمان ابھی تک لاپتہ ہے مسلسل پر امید ہیں کہ ان کا بیٹا ابھی زندہ ہے ۔ اس کی تلاش کےلیے وہ دو ماہ سے ہر کوشش کر چکے ہیں۔
انہوں نے گمشدہ افراد کی تلاش سے متعلق بین الاقوامی کمیشن کو ڈی این اے کا ایک نمونہ فراہم کیا ، رشتے داروں کو یونان بھیجا ، اپنے فون پر کالز کرنے اور سوشل میڈیا پر زندہ بچ جانے والوں کی ویڈیوز کو بار بار دیکھنے پر گھنٹوں صرف کیے۔
ایک ویڈیو میں اپنے بچے کی شکل سے ملتے جلتے شخص کو یونان کے شہر کالاماتا کے ایک ہسپتال لےجاتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے ہسپتال سے رابطہ کیا لیکن ان کے بیٹے کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔
ان کا اصرار ہے کہ ان کا بیٹا ممکن ہے کوما میں ہو یا قید ہو اور اپنے خاندان سے رابطہ نہ کر سکتا ہو ۔ لیکن تمام زخمیوں کو بہت پہلے ہسپتال سے ڈسچار ج کر دیا گیا ہے اور زندہ بچ جانے والے جن نو افراد کو اسمگلرز ہونے کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے وہ سب ہی مصری تھے۔
محمدزیاب نے اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کی امید میں اپنا مال و اسباب بیچ کر اور ادھار لے کر اسمگلروں کی سات ہزار ڈالر کی فیس ادا کی تھی ۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ سفر اتنا خطرناک ہو گا۔ اور جب تک انہیں اپنے بیٹے کی موت کا یقین نہیں ہو جاتا، وہ اپنی اس امید کو توڑنے کو تیار نہیں کہ عبد ل رحمان ایک نہ ایک دن گھر واپس آئے گا۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)