دولت الاسلامیہ یا ’آئی ایس آئی ایس‘ کے شدت پسندوں کی طرف سے شام کے شہر رقعہ کو فتح کیے اور چوکیاں قائم کیے چند ہی ماہ گزرے ہیں، اُنھیں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ شدت پسندوں کے دشمن خواتین کا لباس پہن کر شہر سے فرار ہو رہے ہیں۔
لڑاکا مرد خواتین کی جسمانی جامہ تلاشی لینے سے قاصر ہیں، جو روایتی طور پر لمبا ابایہ پہنتی ہیں، جب کہ اُن کا چہرہ برقعے میں ڈھکا ہوتا ہے۔ اس کا مداوا یوں کیا جانے لگا ہے، کہ وہ خواتین کا ’الخنساٴ برگیڈ‘ تشکیل دینے پر زور دیتے ہیں۔
الخنساٴ قدیم نجد، عربستان، میں ساتویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے ایک شاعرہ تھیں، جنھوں نےپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دور میں اسلام قبول کیا۔ اِسی نام سے رقعہ میں ایک پولیس فورس بھی قائم ہے، جِس کا مقصد خواتین کو دولت الاسلامیہ کی طرف سے نافذ شریعہ کے قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔
عائشہ تنظیم اپنی خصوصی رپورٹ میں بتاتی ہیں کہ، الخنساٴ تنظیم کی رُکن خواتین ٹولیوں کی صورت میں کام کرتی ہیں، جو اکثر و بیشتر مسلح ہوتی ہیں۔
وہ کسی بھی خاتون کو روک کر بغیر محرم کے گھومنے پھرنے سے متعلق پوچھ گچھ کرتی ہیں، وہ ایکساتھ گھومنے والے جوڑوں سے سوال کرتی ہیں، یہ یقینی بنانے کے لیے کہ سفر کرنے والا مرد خاتون کا میاں یا کوئی عزیز ہے، اور یہ بات یقینی بنانے کے لیے کہ شریعت کے مطابق لباس زیب تن کیا جائے۔
برگیڈ کی موجودگی کے باعث دولت الاسلامیہ کو اپنے بارے میں عام تاثر کو بہتر کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
میا بلوم، خواتین اور دہشت گردی پر کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا ہے کہ یہ بات بھی منظر عام پر آئی ہے کہ دولت الاسلامیہ نے تین عراقی خواتین کی بے حرمتی کی، جِنھوں نے بعدازاں خودکشی کرلی۔ اُن کی طرف سے یہ ایک غلط مثال سامنے آئی۔
ایسی اطلاعات کے بعد، اُن کے لیے خواتین کو بھرتی کرنے میں مشکلات سامنے آئیں گی، جو اِن اسلامی ملکوں کے سخت گیر نظریات کی پابند ہیں کہ وہ رقعہ آئیں اور جنگجوؤں سے شادی رچائیں۔ حمیرہ خان واشنگٹن میں قائم ’مفلحون‘ نام کے ایک سرگرم گروپ سے وابستہ ہیں، جس کا مقصد تشدد پر مبنی انتہا پسندی کا انسداد کرنا ہے۔
حمیرہ کہتی ہیں کہ اپنے طرز کے افراد پر مشتمل معاشرہ قائم کرنا اُن کی ضرورت ہے، ’آئی ایس آئی ایس‘ کو ایسےخاندانوں کی ضرورت ہے، اُسے ایسے جنگجو درکار ہیں جو وہاں کے مکین بن جائیں اور علاقے ہی میں رہیں، اُسے ایسی خواتین کی ضرورت ہے جو اپنے مردوں کی ہمت افزائی کریں کہ وہ جہاد کے لیے تیار رہیں، اور مائیں بچوں کی پرورش اس مخصوص سوچ کی بنیاد پر کریں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے، دولت الاسلامیہ سے تعلق رکھنےوالی خواتین اور اُنہی خیالات کی حامل بہنیں اور کامریڈ سماجی میڈیا پر اپنے مخصوص خیالات کا پرچار کرتی ہیں۔ وہ اپنے حامی گروپ تشکیل دیتی ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کس بات کی خواہش کرنی ہے۔
حمیرہ خان کے بقول، وہ اُنھیں وہ گُر بتاتی ہیں کہ وہ پکڑے جانے کے بغیر کس طرح شام میں داخل ہوسکتی ہیں۔ ایسا عمل کرتے ہوئے، وہ بھول جاتی ہیں کہ سفر سے متعلق اُن کے اپنے ضابطے پامال ہورہے ہیں۔ لیکن، یہ کوئی واحد مثال نہیں ہے۔ من مانے پر تلی ہوئی، آئی ایس آئی ایس اپنے ہی قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتی۔
رواجی طور پر شادی کے لیے ایک مسلمان خاتون کو اپنے بڑوں یا ولی سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
حمیرہ خان نے ایک قصہ سنایا جس میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون شادی کے لیے شام جاتی ہیں۔ وہ اپنے والد کو فون کرکے شادی کی اجازت طلب کرتی ہے۔ لیکن، جب اُن کے والد اُنھیں شادی کی اجازت نہیں دیتے، تو دولت الاسلامیہ کے رہنماؤں نے ایک متبادل ولی کا بندوبست کیا۔
سماجی ابلاغ عامہ عراق اور شام سے باہر رہنے والے دولت الاسلامیہ کے جنگجوؤں اور خواتین کی شادیاں کرانے میں معاون بنتا ہے۔
حمیرہ خان کو ایسے ٹوئٹر اکاؤنٹس کا علم ہے جو یورپ سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ہیں، جو اُن عسکریت پسندوں کی شادیوں سے متعلق اشتہار دیتے ہیں۔