ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک یونیورسٹی کے دورے میں ایرانی صدر ابراہیم ریئسی کو طالبات کے احتجاج اور نعروں کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر ابراہیم رئیسی کے دورے کے دوران طالبات نے گزشتہ ماہ ملک کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ایک لڑکی مہسا امینی کی ہلاکت کی مذمت کی جب کہ 'نکل جاؤ' کے نعرےبھی لگائے۔
ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج میں مظاہرے چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ہفتے کو الظاہرہ یونیورسٹی کے دورے میں اساتذہ اور طلبہ سے خطاب کیا، اس دوران انہوں نے احتجاج کی جانب اشارہ کرنے کے لیے ایک نظم بھی پڑھی، جس میں 'فسادات' کو 'مکھیوں' سے تشبیہ دی گئی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ابراہیم رئیسی کا خطاب سرکاری نشریاتی ادارے پر بھی دکھایا گیا جس میں انہوں نے مظاہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔وہ واقف نہیں کہ ایران کے طلبہ اور اساتذہ مستعد ہیں جب کہ وہ دشمن کو مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
ایران کے صدر کے دورے کے دوران طالبات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو رہی ہیں۔ ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبات ایرانی صدر کے لیے “رئیسی نکل جاؤ” اور “مولوی نکل جاؤ” کے نعرے لگا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک اور ویڈیو میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ طلبہ ابراہیم رئیسی کے دورے پر نعرے لگا رہے ہیں کہ ’’انہیں ایک کرپٹ مہمان نہیں چاہیے‘‘۔
SEE ALSO: ایران میں احتجاج: 'لاپتا' ہونے والی 16 سالہ نیکا شاکرمی کی موت معمہ بن گئیسوشل میڈیا پر پوسٹ کردہ ان ویڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ایران کی اخلاقی پولیس نے گزشتہ ماہ مہسا امینی کو بالوں کو حجاب سے مناسب طریقے سے نہ ڈھانپنے کی پاداش میں حراست میں لیا تھا، دورانِ حراست مہسا امینی کی موت ہو گئی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا تھا اور الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کی موت تشدد کے سبب ہوئی ہے۔
بعد ازاں ایرانی حکام نے دعویٰ کیا کہ ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔ تاہم مہسا امینی کے اہل خاندان حکومتی مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امینی کو دل کی کوئی بیماری نہیں تھی۔
انہوں نے الزام لگایا ہے کہ مہسا امینی پر تشدد کیا گیا جب کہ وہ احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
مہسا امینی کی موت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے جو کہ کئی برس کے دوران حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔
خواتین احتجاج کے دوران اپنے حجاب اتار رہی ہیں جب کہ مشتعل مظاہرین ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
دوسری طرف حکومت ان مظاہروں کو ایران کے دشمنوں کی چال قرار دے رہی ہے، جن میں امریکہ بھی شامل ہے جب کہ ان مظاہروں کے دوران کم از کم 20 سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہو چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق احتجاج کے دوران 185 سے زائد مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ سینکڑوں افراد زخمی ہیں اور ہزاروں افراد کو سیکیورٹی فورسز نے گرفتار بھی کیا ہے۔