رسائی کے لنکس

ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے 100 ارب کی سبسڈی؛ صنعتوں کی ضرورت یا اثرو رسوخ کا نتیجہ؟


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومتِ پاکستان نے جہاں حالیہ عرصے میں بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈیز کافی حد تک ختم کر دی ہیں تو وہیں برآمدی شعبے کو حکومت نے 19 روپے 99 پیسے فی یونٹ کے حساب سے سستی بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اس اقدام سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بااثر مالکان کو فائدہ پہنچا جا رہی ہے، تاہم حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ اس کا مقصد ملکی ایکسپورٹ کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات اس کی کُل برآمدات کا 60 فی صد سے بھی زائد ہیں اور گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان نے 19.3 ارب امریکی ڈالر کی ٹیکسٹائل اشیاٗ برآمد کی تھیں جو کہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہیں۔

رقم کے لحاظ سے یہ حجم مالی سال 2021 سے بھی 25 فی صد زیادہ تھا۔ ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے تک جمود کا شکار رہنے کے بعد گزشتہ چند برسوں میں اس شعبے میں خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اگر رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی ہی کی بات کی جائے تو بھی ٹیکسٹائل کی خالص برآمدات میں بھی 4 فی صد کا اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر کو دی جانے والی یہ رعایت قومی خزانے پر 100 ارب روپے کا بوجھ ڈالے گی۔لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کا ایکسپورٹ انڈسٹری سے کیا گیا پرانا وعدہ تھا اور اسے اسی طرح جاری رکھا جائے گا جیسا کہ پہلے سے چلا آرہا تھا۔

پانچ اکتوبر کو وزیرِ اعظم کو لکھے گئے خط میں ٹیکسٹائل ملز مالکان نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ توانائی کے علاقائی مسابقتی ریٹس حکومتی وعدے کے باوجود منقطع کرنے سے بے چینی بڑھے گی اور فیکٹریاں بند کرنی پڑ جائیں گی۔

خط میں کہا گیا تھا کہ ملک میں اوسط بجلی کا ریٹ 20 سینٹ فی یونٹ ہے جب کہ چین اور بنگلہ دیش میں 10 سینٹ، بھارت میں 9 سینٹ، ویت نام میں 8 اور ازبکستان میں 4 سینٹ فی یونٹ بجلی دی جاتی ہے۔ اسی طرح گیس کے ریٹس کی بات کی جائے تو صوبہ پنجاب میں یہ 9 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ، سندھ میں 3.75 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے جب کہ چین میں یہ 6.35 سینٹ، بھارت میں 6.1 اور بنگلہ دیش میں 4.2 سینٹ کی ملتی ہے۔


'یہ سبسڈی نہیں بلکہ اس کا مقصد بجلی کی قیمتیں علاقائی ممالک کے برابر لانا ہے'

ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے خرم مختار کا کہنا ہے کہ یہ سبسڈی نہیں بلکہ اس کا مقصد برآمدی شعبے کے لیے ٹیرف کو معقول بنانا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خرم مختار کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ملکی مصنوعات بین الاقوامی منڈی میں مہنگی ہو جائیں گی، ظاہر ہے کہ مہنگی اشیاٗ کے مقابلے میں صارفین سستی اشیاٗ کو فوقیت دیتے ہیں۔ یوں پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی طلب میں کمی واقع ہوجائے گی جس کا نقصان پاکستان کو کم برآمدات کی صورت میں اٹھانا پڑے گا۔

خرم مختار کے مطابق اصل میں یہ مسئلہ ملک میں مہنگی توانائی سے جُڑا ہوا ہے جہاں جہاں لائن لاسز زیادہ اور ریکوری انتہائی کم ہے۔ حال ہی میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی سامنے آنے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ایک سال میں بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے 343 ارب روپے کا نقصان کیا ہے جو ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد بنتا ہے۔

خرم مختار نے مزید بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کافی بہتر طریقے سے گرڈز کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور بل بھی باقاعدگی سے ادا کر رہا ہے۔ اس لیے ان کے مطابق اس سیکٹر میں ریکوری میں نقصانات اور لائن لاسز بہت ہی کم ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ملک کے سب سے بڑے برآمدی شعبے کو مہنگی بجلی اور گیس ملنا ناانصافی کے مترادف ہو گی ا ور اس سے پاکستان کی برآمدات بھی اس سے متاثر ہوں گی۔

سستی بجلی کا حصول کیسے ممکن ہے؟

آل پاکستان ہوزری مینوفیکچرر اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد بابر خان کا کہنا ہے کہ برآمدکنندگان کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ خطے کے دیگر ممالک کے برابر بجلی اور گیس کی قیمتیں رکھیں، اگر قیمتیں زیادہ ہوں گی تو ان کی پیداواری لاگت زیادہ آئے گی اور یوں وہ مصنوعات مہنگی ہوجائیں گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بابر خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اگر مہنگے درآمدی ایندھن سے چلنے والے پلانٹس کے بجائے بجلی کے سستے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی ہوتی تو ملک میں صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہوتی۔ لیکن فوری بجلی پیدا کرنے کے لیے تھرمل اور کوئلے کے بجلی گھر لگا دیے گئے جسے چلانے کے لیے کوئلہ یا تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔

اُن کے بقول کرونا وباٗ کے بعد کوئلے اور تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں دگنی سے بھی زیادہ ہوچکی ہیں جب کہ پن بجلی اور توانائی کے متبادل ذرائع یعنی شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔


بابر خان اس سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں کوئی ویلیو ایڈیشن نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ویلیو ایڈیشن بھی ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی مصنوعات کی برآمدات بڑھی ہیں۔ لیکن ویلیو ایڈیشن کو مزید بڑھانے کے لیے توانائی مسابقتی قیمتوں پر ملنا ضروری ہے۔

خام مال سستے داموں موجود ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل برآمد کم

معاشی ماہر سمیع اللہ طارق ان حقائق کو کسی حد تک تسلیم تو کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگے درآمدی ایندھن کی وجہ سے بجلی کی پیداوار مہنگی ہے، جس کی وجہ اس ضمن میں لیے گئے اُن کے بقول غلط فیصلے ہیں۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر نے دو دہائیوں میں وہ ترقی نہیں کی جو بنگلہ دیش کے ٹیکسٹائل سیکٹر نے کر دکھائی ہے۔ اس کے باوجود بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کا تقریبا تمام ہی خام مال باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے، وہاں اس شعبے میں چند برسوں میں بڑی ترقی ہوئی ہے، افرادی قوت کو بھی بڑی تعداد میں نوکریاں ملی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے جی ڈی پی میں ٹیکسٹائل سیکٹر کا حصہ پاکستان میں اس کے حصے سے زیادہ ہے جب کہ اس کی مصنوعات کی کوالٹی بہتر ہونے کی وجہ سے بہت جلد اس نے یورپ اور امریکہ کی مارکیٹوں میں اپنا مقام بنالیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دوسری جانب پاکستان میں کپاس اور دیگر خام مال موجود ہونے اور سستی لیبر کے باوجود پیداواری لاگت زیادہ آنا ایک سوالیہ نشان ہے۔ تاہم اس میں بجلی اور گیس کی بڑھی ہوئی قیمتیں ایک عنصر ضرور ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG