پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ چھ روزہ دورۂ امریکہ کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ اس دورے کو دونوں ملکوں میں پاکستان اور ٘مغرب کے درمیان حالیہ تناؤ کے تناظر میں تعلقات بہتر بنانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
دورے کے حوالے سے دونوں ملکوں کے حکام کی طرف سے جاری کیے گئے بیانات میں افغانستان میں دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران برسوں کی بداعتمادی کے بعد تعاون کے لیے نئی راہوں کی تلاش پر زور دیا گیا۔
جنرل باجوہ کو امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے منگل کو پینٹاگان میں خوش آمدید کہا۔ اس ملاقات میں دیگر امریکی اعلیٰ عسکری حکام بھی موجود تھے۔
ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مختصر بیان میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی 75 سالہ تاریخ پر روشی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جاری پائیدار شراکت داری کے تحت ملاقات میں باہمی دفاعی مفادات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔اس حوالے سے امریکی وزیرِ دفاع نے جنرل باجوہ کے ساتھ اس ملاقات کی ایک تصویر بھی شیئر کی۔
اس ملاقات پر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر نے کہا کہ ملاقات میں سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر غور کیا گیا۔ ایک بیان کے مطابق امریکی وزیرِ دفاع نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تاریخٰی تعلقات میں معاشی تعلقات، تجارت اورسرمایہ کاری کے ذریعے مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل باجوہ نے امریکی قیادت پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں سیلاب سےہونے والی بدترین تباہی سے نمٹنے کے لیے متاثرین کی بحالی اور آبادکاری میں پاکستان کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے۔
افغانستان کا عنصر
پاکستانی آرمی چیف تین سال کے وقفے کے بعد امریکہ کے دورے پرگئےتھے۔
امریکہ میں تعینات رہنے والے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کہتے ہیں کہ گو کہ عالمی قوتیں پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتیں، لیکن "اب امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت نہیں ہے"۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ میں سیکیورٹی امور کے ماہر کامران بخاری کا کہنا ہے کہ جنرل قمر باجوہ کے اس دورے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صرف موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ازسرِ نو استوار کرنا چاہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کامران بخاری کا کہنا تھا کہ امریکی انخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد واشنگٹن اور اسلام آباد اس بات کا تعین کر رہے ہیں کہ امریکہ کس طرح انسدادِ دہشت گردی اور افغان طالبان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان کی مدد حاصل کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول اسی طرح پاکستان یہ چاہتا ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کوششوں میں امریکہ پاکستان کی مدد کرے۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ بداعتمادی کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے درمیان ملٹری اور انٹیلی جنس تعاون جاری ہے اور یہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔
پاک، امریکہ تعلقات میں چین کی اہمیت
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر تمنا سالک الدین کہتی ہیں کہ افغان جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان، امریکہ کے تعلقات کا محور امریکہ کی خطے میں چین کے ساتھ مسابقت اور جیو پولیٹیکل حالات ہوں گے۔
تمنا سالک الدین نے کہا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے مضبوط معاشی، سیکیورٹی اور ملٹری تعلقات کے باوجود امریکہ، پاکستان کے ساتھ تجارتی اور سیکیورٹی تعلقات برقرار رکھے گا۔
خیال رہے کہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں ملکوں کی تجارت کا سالانہ حجم چھ ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب چین پاکستان میں چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کی مد میں 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
پاکستان کی سول اور فوجی قیادت مختلف مواقع پر یہ واضح کرتی رہتی ہے کہ پاکستان چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن کا خواہاں ہے اور کسی کیمپ یا عالمی بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ حسین حقانی کہتے ہیں کہ امریکہ نہ تو چین کی جگہ لے سکتا ہے اور نہ ہی وہ لینے کا خواہش مند ہے۔
حسین حقانی کے مطابق پاکستان کے ذمے واجب الادا بیرونی قرضوں میں سے 30 فی صد چین کو واپس کرنا ہیں۔ لہذٰا اُن کے بقول امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ پاکستان کو اربوں ڈالر دے ۔سابق سفیر کہتے ہیں کیونکہہ دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان ہےاس لیے بظاہر اُنہیں امریکہ کی ایسی کوئی خواہش دکھائی نہیں دیتی کہ وہ پاکستان پر اتنی رقم خرچ کرے۔
بھارت کا عمل دخل
پاکستان کے آرمی چیف کے دورۂ امریکہ سے چند ہفتے قبل ہی امریکی کانگریس نے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی مرمت اور ملٹری ہارڈویئر فراہم کرنے کے لیے 45 کروڑ ڈالرز کی منظوری دی تھی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کا یہ مؤقف ہے کہ پاکستان کے لیے یہ سیکیورٹی امداد 2018سے زیرِ التوا تھی۔
لیکن اس کے باوجود امریکہ کے اس اقدام پر بھارت نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ مرمت ہونے والے یہ طیارے بھارت کے خلاف ہی استعمال ہو سکتے ہیں۔
امریکی حکام نے بھارت کے تحفظات پر یہ وضاحت کی تھی کہ پاکستان ان طیاروں کو انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کرے گا۔
حسین حقانی کہتے ہیں کہ خطے میں امریکہ کا جھکاؤ پاکستان سے زیادہ بھارت کی طرف ہے، لہذٰا امریکہ اپنی یہی پالیسی برقرار رکھے گا۔
مقامی حالات
جنرل باجوہ کی اپنی مدتِ ملازمت پوری ہونے سے محض چند ہفتے قبل امریکی دورے پر یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں کہ شاید وہ اپنی مدتِ ملازمت میں مزید توسیع کے لیے امریکی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن دورۂ واشنگٹن کے دوران ہی غیر رسمی ملاقاتوں میں آرمی چیف نے عندیہ دیا کہ وہ مزید ایکسٹینشن کے خواہاں نہیں ہیں۔
ماہرین اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکہ اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گا۔
تمنا سالک الدین کہتی ہیں کہ امریکی وزیرِ دفاع کی جانب سے جنرل باجوہ کو یہ دعوت نامہ رواں برس کے آغاز میں دیا گیا تھا اور اس وقت جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کی مدت میں کافی وقت باقی تھا۔
اُن کے بقول پاکستان میں سیاسی افراتفری اور دیگر حالات کی وجہ سے جنرل باجوہ کے اس شیڈول دورۂ امریکہ میں تاخیر ہوئی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے قومی معاملات میں فوج کے اثرو رسوخ اور غیر مستحکم سول حکومتوں کے تناظر میں امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی فوج ہی ایک پائیدار ادارہ جس سے امریکہ اپنے معاملات طے کر سکتا ہے، چاہے اس کی قیادت کوئی بھی کر رہا ہو۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ امریکی سمجھتے ہیں کہ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے آرمی چیف سے بات چیت کر رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اسی آفس ہولڈر کے ساتھ روابط رکھیں گے۔