بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں پرانے بحری جہاز وں کو توڑنے والی 22 کمپنیوں نے عدالت سے دفعہ 144 کے خلاف حکم امتنای حاصل کرنے کے بعد زور و شور سے ا پنا کام دوبارہ شروع کردیا ہے۔
ضلع لسبیلہ کے ڈپٹی کمشنر سید ذوالفقار علی شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سمندر میں اس وقت 17 جہاز لنگر انداز ہیں اور متعلقہ حکام نے وہاں کام کر نے والے مزدوروں کے لئے حفاظتی انتظامات یقینی بنانے کے بعد کام شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
یکم نومبر کو یہاں مختلف ممالک کے لئے تیل لے جانے والے ایک ناکارہ سمندری آئل ٹینکر کو توڑا جارہا تھا کہ جہاز کے اندر ایک زوردار دھماکے کے بعد آگ لگ گئی تھی جس پر چار روز کے بعد قابو پالیاگیا تھا۔ اس حادثے میں 27 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ چار تاحال لاپتا ہیں۔ 50 سے زائد افراداب بھی مختلف اسپتالوں میں زندگی اور مو ت کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔
مزدور راہنماﺅں نے حفاظتی انتظامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے موثر اقدامات کئے جائیں۔
وائس اف امر یکہ سے گفتگو کر تے ہوئے گڈانی شپ بر یکنگ ورکرز یونین کے صدر بشیر احمد مُندرانی کا کہنا تھا کہ حادثے میں ہلاک ہونے والے چار افراد کے سوا باقی لوگوں کے لواحقین کو ابھی تک معاوضہ نہیں دیا گیا۔ زخمیوں کی بھی مدد نہیں کی گئی کچھ لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں لیکن لاشوں کی تلاش بند کردی گئی ہے اور ان حالات میں دوبارہ کام شروع کر نے کے خلاف مزدور احتجاج کا پروگرام بنارہے ہیں۔
"پہلے متاثرین کا مداوا کر لیں پھر کام شروع کیا جائے۔ میں نہیں سمجھتا کہ حفاظتی انتظامات تسلی بخش ہیں، شپ بر یکنگ میں جو تیل کی فلنگ (جہاز میں تیل بھر نے ) کا جو ایک طر یقہ کا ر ہو تا ہے اُس کو صحیح اور صاف کروایا جائے، جہاز کے اندر لائٹنگ ہو لوگوں کے آنے جانے کے لئے سہولت ہو، دوسرا یہ کہ فلٹر شدہ پانی لوگوں کو پلائیں، کینٹین بنوائیں، ڈسپنسری بنوائیں ہر پلاٹ میں ایمبولینس ہونی چاہیے۔"
وفاقی وزیر برائے جہاز رانی میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے
گڈانی واقعے کی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ صوبائی حکومت کو ارسال کردی ہے اورصوبائی حکومت کو حفاظتی انتظامات یقینی بنا نے کے بعد کام شر وع کرنے کی اجازت دینے کی سفارش کی گئی ہے۔
"وفاقی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں یہ مکمل طور پر ایک صوبائی معاملہ ہے اور اس کی تحقیقات صوبائی حکومت کر رہی ہے اور ذمہ داری اُنہی کی ہے مگر ہم نے پورٹ اینڈ شپنگ کی طرف سے جو تحقیقات کی تھیں ہم نے یہ کہا تھا کہ اس کو فوری طور پر کھولا جائے مگر حفاظتی اقدامات کئے جائیں، یہ ہم خود نہیں کر سکتے ہیں۔"
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے چار افراد کے لواحقین کو مالی امداد فراہم کر چکی ہے جب کہ دیگر کے لیے اقدام کیے جا رہے ہیں۔