پولیس افسر بننے کا شوق ایک پولیس افسر کو دیکھ کر ہی ہوا تھا پہلی بار کسی ایسی خاتون کو دیکھنا جو پولیس جیسے شعبے میں کام کررہی ہو تو سوچا کہ کیوں نہ میں بھی اس شعبے میں کام کروں،جسکی وجہ یونیفارم اٹریکشن ہے، خاتون پولیس افسر
کراچی —
آج کل جہاں دیگر روایتوں میں تبدیلیاں آتی جارہی ہیں وہیں دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستانی خواتین بھی ہرشعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مردوں کے معاشرے میں خواتین کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں۔
ورکنگ لیڈیز ایک طرف گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہیں تو دوسری جانب پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی بھی کررہی ہیں۔ 'وائس آف امریکہ' نے پاکستان کے دو اہم شعبوں میں کام کرنےوالی خواتین سے گفتگو کی ہے۔
اکثر کہاجاتا ہے کہ پاکستان دنیا کے دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے مگر جب بات ہو خواتین کیلئے' بینکنگ' کی تو پڑوسی ملک بھارت نے حال ہی میں خواتین کیلئے ایک
علیحدہ 'مہیلا بینک' بنایا ہے جبکہ پاکستان میں خواتین کیلئے علیحدہ بینک کا قیام 25 سال پہلے ہی ہوگیا تھا۔
نجی شعبے کے تحت چلنے والے اس 'فرسٹ وومن بینک' کی سینئر وائس پریزیڈنٹ مارکیٹنگ شاہین ضمیر وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہتی ہیں کہ "بینکنگ سیکٹر میں خواتین کا اہم کردار ہے۔ ایک وقت میں پاکستان میں بینکنگ کے شعبے میں صرف ایک فیصد خواتین کام کرتی تھیں جبکہ اب یہ شرح بڑھ کر 10 فیصد کے لگ بھگ ہوچکی ہے جبکہ خواتین کیلئے بنائے گئے علیحدہ بینک سے اکثر خواتین بینکنگ کے شعبے میں آرہی ہیں"۔
ورکنگ لیڈی کے حوالے سے شاہین کا کہنا تھا کہ "اگر کئی برس پہلے کا جائزہ لیا جائے تو خواتین کے ہر شعبے میں کام نہیں کرتی تھیں جبکہ اج کے وقت میں خواتین باہر نکلنا شروع ہوئیں ہیں معاشی اعتبار سے خواتین گھر کی کفالت کا ذمہ اٹھاںے کے بھی قابل ہوگئی ہیں کیونکہ اب صرف اب مرد کے کمانے سے گھر چلانا مشکل ہے"
ورکنگ وومن کے مسائل کےحوالے سے وہ کہتی ہیں کہ "جہاں غیرپیشہ ورانہ روئے ہوں وہاں ورکنگ وومن کیلئے مسائل ہوتے ہیں جب کہ کام کرنےوالی جگہ پر خواتین اپنے کام میں مگن رہیں اور کمزور نہ پڑیں ،ڈٹی رہیں تو مسائل کم ہوتے ہیں"
شاہین ضمیر مزید کہتی ہیں کہ "ہر خاتون کو مثبت تبدیلی کیلئے کام کرتے رہنا چاہئے۔ خواتین سمیت مرد بھی ایسے عمل کا آغاز کریں جو روشن پاکستان کی جانب گامزن ہے۔
پاکستان کے ایک اور اہم شعبے پولیس جیسے ذمہ دار شعبے میں بھی کراچی پولیس میں کئی خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ انھیں میں پولیس افسر سیدہ غزالہ بھی ہیں جو پچھلے بیس برس سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں سیدہ غزالہ کہتی ہیں کہ "معاشرے میں خواتین ہر شعبے میں اپنا اہم کردار ادا کررہی ہیں ان کو آگے نہیں لایاجاتا جسکی وجہ سے خواتین کو مسائل کا شکار رہتی ہیں"۔
غزالہ کہتی ہیں کہ مجھے پولیس افسر بننے کا شوق ایک پولیس افسر کو دیکھ کر ہی ہوا تھا پہلی بار کسی ایسی خاتون کو دیکھنا
جو پولیس جیسے شعبے میں کام کررہی ہو تو سوچا کہ کیوں نہ میں بھی اس شعبے میں کام کروں،جسکی وجہ یونیفارم اٹریکشن ہے۔
ایک خاتون پولیس افسر ہونےکےحوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ دیگر حکومتی شعبوں کی طرح خواتین پولیس کا شعبہ بھی مسائل کا شکار ہےہمیں بھی کئی مسائل اور سہولتوں کا فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ڈیوٹی فرض سمجھ کر نبھاتے ہیں"۔
ہمارا مقصد ہے کہ " ہر خاتون کو یہ بتائیں کہ وہ اس ملک کی آزاد شہری ہے اگر انھیں کوئی مسئلہ لاحق ہوتو وہ آکر خواتین پولیس اسٹیشن مں شکایت جمع کروائیں تاکہ ہم انھیں حل کرسکیں"۔
وہ کہتی ہیں کہ ایک خاتون پولیس افسر ایک ورکنگ لیڈی اور ماں ہونےکےحوالے سے میں اپنے اپ پر فکر محسوس کرتی ہوں کہ میں ایک اچھی بیوی، ایک اچھی ماں اور ایک اچھی پولیس افسر ہوں جبکہ سب خواتین کو بھی یہی بتانا چاہتی ہوں کہ وہ جو چاہیں کرسکتی ہیں"۔
ورکنگ لیڈیز ایک طرف گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہیں تو دوسری جانب پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی بھی کررہی ہیں۔ 'وائس آف امریکہ' نے پاکستان کے دو اہم شعبوں میں کام کرنےوالی خواتین سے گفتگو کی ہے۔
اکثر کہاجاتا ہے کہ پاکستان دنیا کے دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے مگر جب بات ہو خواتین کیلئے' بینکنگ' کی تو پڑوسی ملک بھارت نے حال ہی میں خواتین کیلئے ایک
علیحدہ 'مہیلا بینک' بنایا ہے جبکہ پاکستان میں خواتین کیلئے علیحدہ بینک کا قیام 25 سال پہلے ہی ہوگیا تھا۔
نجی شعبے کے تحت چلنے والے اس 'فرسٹ وومن بینک' کی سینئر وائس پریزیڈنٹ مارکیٹنگ شاہین ضمیر وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہتی ہیں کہ "بینکنگ سیکٹر میں خواتین کا اہم کردار ہے۔ ایک وقت میں پاکستان میں بینکنگ کے شعبے میں صرف ایک فیصد خواتین کام کرتی تھیں جبکہ اب یہ شرح بڑھ کر 10 فیصد کے لگ بھگ ہوچکی ہے جبکہ خواتین کیلئے بنائے گئے علیحدہ بینک سے اکثر خواتین بینکنگ کے شعبے میں آرہی ہیں"۔
ورکنگ لیڈی کے حوالے سے شاہین کا کہنا تھا کہ "اگر کئی برس پہلے کا جائزہ لیا جائے تو خواتین کے ہر شعبے میں کام نہیں کرتی تھیں جبکہ اج کے وقت میں خواتین باہر نکلنا شروع ہوئیں ہیں معاشی اعتبار سے خواتین گھر کی کفالت کا ذمہ اٹھاںے کے بھی قابل ہوگئی ہیں کیونکہ اب صرف اب مرد کے کمانے سے گھر چلانا مشکل ہے"
ورکنگ وومن کے مسائل کےحوالے سے وہ کہتی ہیں کہ "جہاں غیرپیشہ ورانہ روئے ہوں وہاں ورکنگ وومن کیلئے مسائل ہوتے ہیں جب کہ کام کرنےوالی جگہ پر خواتین اپنے کام میں مگن رہیں اور کمزور نہ پڑیں ،ڈٹی رہیں تو مسائل کم ہوتے ہیں"
شاہین ضمیر مزید کہتی ہیں کہ "ہر خاتون کو مثبت تبدیلی کیلئے کام کرتے رہنا چاہئے۔ خواتین سمیت مرد بھی ایسے عمل کا آغاز کریں جو روشن پاکستان کی جانب گامزن ہے۔
پاکستان کے ایک اور اہم شعبے پولیس جیسے ذمہ دار شعبے میں بھی کراچی پولیس میں کئی خواتین اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ انھیں میں پولیس افسر سیدہ غزالہ بھی ہیں جو پچھلے بیس برس سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں سیدہ غزالہ کہتی ہیں کہ "معاشرے میں خواتین ہر شعبے میں اپنا اہم کردار ادا کررہی ہیں ان کو آگے نہیں لایاجاتا جسکی وجہ سے خواتین کو مسائل کا شکار رہتی ہیں"۔
غزالہ کہتی ہیں کہ مجھے پولیس افسر بننے کا شوق ایک پولیس افسر کو دیکھ کر ہی ہوا تھا پہلی بار کسی ایسی خاتون کو دیکھنا
ایک خاتون پولیس افسر ہونےکےحوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ دیگر حکومتی شعبوں کی طرح خواتین پولیس کا شعبہ بھی مسائل کا شکار ہےہمیں بھی کئی مسائل اور سہولتوں کا فقدان کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ڈیوٹی فرض سمجھ کر نبھاتے ہیں"۔
ہمارا مقصد ہے کہ " ہر خاتون کو یہ بتائیں کہ وہ اس ملک کی آزاد شہری ہے اگر انھیں کوئی مسئلہ لاحق ہوتو وہ آکر خواتین پولیس اسٹیشن مں شکایت جمع کروائیں تاکہ ہم انھیں حل کرسکیں"۔
وہ کہتی ہیں کہ ایک خاتون پولیس افسر ایک ورکنگ لیڈی اور ماں ہونےکےحوالے سے میں اپنے اپ پر فکر محسوس کرتی ہوں کہ میں ایک اچھی بیوی، ایک اچھی ماں اور ایک اچھی پولیس افسر ہوں جبکہ سب خواتین کو بھی یہی بتانا چاہتی ہوں کہ وہ جو چاہیں کرسکتی ہیں"۔