عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آئندہ مالی سال میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار ایک فی صد تک سکڑنے کا خدشہ ہے۔
اس سے قبل عالمی بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان میں معیشت کی ترقی کی شرح تین فی صد رہے گی لیکن حالیہ پیش گوئی کے مطابق اس شرح میں مزید ایک فی صد کمی ظاہر کی گئی ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سال قومی معیشت میں سکڑاؤ دیکھا گیا اور معاشی ترقی کی حقیقی رفتار محض 2.1 فی صد دیکھی جا رہی ہے۔
پاکستان کی قومی اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال معیشت میں 0.38 فی صد کا سکڑاؤ دیکھا جا رہا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ سروس سیکٹر میں آنے والا بڑا سکڑاؤ ہے۔
اسی طرح پاکستان کی زرعی پیداوار میں 2.67 فی صد جب کہ صنعتی پیداوار میں بھی 2.64 فی صد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق زراعت میں ترقی کی شرح 3.5 فی صد، صنعتی ترقی کی شرح میں محض 2.3 فی صد جب کہ سروس سیکٹر میں 4.8 فی صد کی نمو رہنے کی توقع ہے۔
عالمی بینک کی جانب سے پیش کردہ اعدادو شمار ترقی کی شرح آئندہ سال اس سے مزید کم رہنے کے اشارے دے رہے ہیں۔
سال 2018 میں پاکستان کی حقیقی مجموعی قومی پیداوار 5.5 رہنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ لیکن بعد میں سامنے آنے والے اعداد و شمار میں یہ شرح توقعات سے 2.1 فی صد کم ریکارڈ کی گئی۔
اسی طرح سال 2019 میں جی ڈی پی کی شرح 3.3 فی صد رہنے کی توقع تھی۔ جو سال کے اختتام پر منفی 0.1 فی صد کم ریکارڈ کی گئی۔
سال 20-2019 میں جی ڈی پی کی شرح 2.4 فی صد رہنے کی توقع ظاہر کی گئی تھی۔ جو نئی رپورٹ کے مطابق مزید 0.3 فی صد کم رہنے کی توقع ہے۔
اسی طرح نئے مالی سال یعنی 2021 میں بھی عالمی بینک کے اندازے سے ترقی کی مجموعی حقیقی شرح ایک فی صد منفی رہنے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں اس کی بنیادی وجہ معیشت پر سرمایہ کاروں کا کمزور اعتماد، معاشی بحران میں لکویڈیٹی کے مسائل اور سخت مانیٹری پالیسی کے باعث فکسڈ سرمایہ کاری اور کھپت میں کمی قرار دی گئی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کی بنیادی ذمہ داری کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر ہے۔ جس کی وجہ سے اشیا سازی میں 5 فی صد جب کہ کپاس کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ ٹڈی دل کے حملوں کی وجہ سے اب گندم کی فصل کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران گندم بھی بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑسکتی ہے۔
معاشی ماہر خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ سروس انڈسٹری بھی گزشتہ تین سے چار ماہ بری طرح متاثر رہی ہے کیونکہ اس میں 68 فی صد حصہ ریٹیل سے وابستہ کاروبار کا ہوتا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ موجودہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں اس سیکٹر میں 10 سے 15 فی صد کا سکڑاؤ آئے گا۔ جس سے معیشت میں مجموعی طور پر ترقی کی رفتار منفی ہو جائے گی اور ایسا 68 سالوں میں پہلی بار ہوگا۔
اگلے بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے پر زور
دوسری جانب پاکستان میں نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کے لیے سفارشات اور مختلف تجاویز کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کرونا سے پیدا شدہ صورت حال میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجٹ کی تیاری میں غیر ترقیاتی اخراجات کے لیے رقم کم مختص کی جائے گی۔ جب کہ صحت کے ساتھ ان سیکٹرز کو سبسڈی فراہم کی جائے گی۔ جو کرونا وائرس سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جن میں ہوٹل اور ایئر لائنز انڈسٹری سرفہرست ہیں۔
معاشی ماہر خرم شہزاد کے مطابق حکومت کے پاس اس وقت محصولات کو بڑھانے کے لیے آپشنز کم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ معیشت اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ جس سے دو کروڑ کے قریب افراد کے بے روزگار ہونے کے خدشات ہیں۔ اس لیے معاشی پہیے کو چلانے کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات 400 سے 500 ارب روپے کم کرنا ہوں گے۔
عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے کئی دیگر ممالک میں بھی ترقی کی شرح میں کمی کا خدشہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق آئندہ مالی سال میں بھارت کی ترقی کی حقیقی شرح میں منفی ایک اعشاریہ سات فی صد تک کمی ریکارڈ کی جا سکتی ہے۔