پاکستان سے تازہ سبزیاں اور پھل بیرون ملک برآمد کرنے کے کام سے شازیہ متین گزشتہ چار برس سے وابستہ ہیں اور ان کا کاروبار مشرق وسطیٰ سے لے کر مشرقِ بعید، یورپ اور امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔
اس کاروبار میں ان کا روز ہی کسانوں اور آڑھتیوں سے لے کر پیکنگ سے وابستہ افراد، کلیئرنگ ایجنٹس اور پھر بیرون ملک مختلف کمپنیز، درآمد کنندگان یا سرکاری حکام سے رابطہ رہتا ہے۔
ایک ایسا شعبہ جہاں تقریباً مکمل طور پر ہی مردوں کا غلبہ ہے، شازیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ اس شعبے میں کام کرنے والی واحد پاکستانی خاتون ہیں۔
سن 2015 سے اس شعبے سے وابستہ شازیہ کے ماتحت اس وقت 150 سے زائد افراد کام کر رہے ہیں۔ جو ان کے مطابق سب ہی مرد ہیں۔
مردوں کا غلبہ رکھنے والے پاکستانی معاشرے میں شازیہ کا تجربہ بالکل مختلف رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی فیلڈ میں مردوں نے ان کا بے حد ساتھ دیا، ان کی حمایت کی اور اس کی وجہ سے آج وہ پاکستان کی معروف ایکسپورٹرز میں شمار ہوتی ہیں۔
ان کے خیال میں اگر آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو مواقع موجود ہیں، اصل چیز ہے کہ آپ میں اس کام کو سر انجام دینے کا کتنا جذبہ ہے۔ ان کے مطابق بالآخر اس کا بہت ہی اچھا صلہ بھی ملتا ہے۔
شازیہ متین کا کہنا ہے کہ کامیابی اور اپنا مقام بنانے کے لیے بہر حال محنت تو کرنی ہی پڑتی ہے۔
شازیہ متین کے مطابق پاکستان میں خواتین کے لیے کاروبار کرنے کے حالات اب بدل رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے بھی اس ضمن میں کئی اصلاحات متعارف کرا کر اس میں آسانی لائی گئی ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ معاشرے میں بالعموم اس بارے میں شعور میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ عمل بہت سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ لوگ اب خواتین کو معاشی میدانوں میں آگے بڑھتے ہوئے قبول کر رہے ہیں۔
پاکستان میں خواتین کے کاروبار اور معاشی مواقع میں آسانیاں
عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کو کاروبار کرنے کی سہولیات دینے اور ان کے لیے معاشی مواقع پیدا کرنے میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں اور اس وجہ سے پاکستان کے مجموعی اسکور میں گزشتہ سال کی نسبت اضافہ دیکھا گیا ہے۔
سال 2020 میں پاکستان 190 ممالک کی فہرست میں 172 ویں نمبر پر تھا تاہم سال اس سال سامنے آنے والی رپورٹ میں اس فہرست میں پاکستان کی درجہ بندی بہتر ہوکر 167ویں نمبر پر آگئی ہے۔
رپورٹ میں پاکستان ان معیشتوں میں شامل کیا گیا ہے جہاں اس بارے میں اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں۔
رپورٹ تیار کرتے وقت جن عوامل کو بنیاد بنایا گیا ہے ان میں خواتین کے نقل و حرکت کے مواقع، کام کی جگہ پر بہتر ماحول میسر ہونا، تنخواہ، شادی، کاروبار، اثاثے اور پینشن کے دستیاب مواقع کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
پاکستان کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ ملک میں خواتین کو کاروبار کرنے میں آسانیوں کے ساتھ کام کی جگہ کو بہتر بنانے میں خاصی پیش رفت ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان کا مجموعی اسکور گزشتہ سال 49.9 کی نسبت اس سال 55.6 بہتر ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے حالیہ اصلاحات کے ذریعے خواتین کو بھی اپنا کاروبار رجسٹرڈ کرنے کے لیے وہی عمل متعارف کرایا ہے جو مردوں کے لیے نافذ ہے۔ جب کہ پاکستان نے کام کی جگہوں کو مزید بہتر بنانے کے لیے بہت اچھی قانون سازی کی ہے اور اس میں پاکستان نے 100 میں سے 100 اسکور حاصل کیے ہیں۔
ملک میں نئی رجسٹرڈ ہونے والی کمپنیوں میں خواتین کی نمائندگی
ادھر پاکستان میں کمپنیوں کو رجسٹرڈ کرنے کے ذمہ دار ادارے ‘سیکوریٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان’ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ملک میں 21 ہزار 168 کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی۔ جن میں سے 5 ہزار 145 کمپنیوں میں کم از کم ایک خاتون ڈائریکٹر شامل ہیں۔ جب کہ نئی رجسٹرڈ کمپنیوں میں خواتین کی نمائندگی کی شرح 24.3 فی صد ہے جو پہلے سے کافی حوصلہ افزا قرار دی جا سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خواتین کے لیے معاشی مواقع فراہم کرنے میں چیلنج کیا ہے؟
رپورٹ کے مطابق پاکستان کو خواتین کی نقل و حرکت کے لیے مزید بہتری لانے کے ساتھ خواتین کی تنخواہ سے متعلق قوانین، شادی اور پھر بچوں کے پیدا ہونے کے بعد خواتین کے کام کو متاثر کرنے والے قوانین میں بعض رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ املاک اور وراثت میں صنفی فرق روا رکھنے اور خواتین کی پینشن کے حجم کو متاثر کرنے والے قوانین پر بھی غور کی ضرورت ہے۔
مزید سہولیات کی اشد ضروت
‘اسلام آباد وومن چیمبر آف کامرس’ کی بانی رکن ثمینہ فاضل کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں خواتین کو کاروبار کرنے اور انہیں مساوی معاشی حقوق کی دستیابی میں آسانی آئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ نئی نسل میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کا بڑھتا ہوا رجحان ہے اور ایسی خواتین آئی ٹی کو استعمال میں لاکر اپنے کاروبار کو وسعت دے رہی ہیں۔
ثمینہ فاضل کا کہنا ہے کہ خواتین کو معاشی میدان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے مزید سہولیات کی اشد ضروت ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو اپنے بزنس کی نمائش کے لیے پورے ملک میں کوئی مناسب جگہیں دستیاب نہیں۔ جب کہ حکومت کی جانب سے خواتین کو کاروبار بڑھانے کے لیے بلا سود قرضوں کی فراہمی کے لیے اس قدر سخت شرائط ہیں کہ خواتین کو ان کو پورا کرنے میں شدید دقت کا سامنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ خواتین بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں مگر ان کے پاس وسائل اور سرمائے کی کمی کا سامنا ہے۔ ان کے خیال میں حکومت اب بھی اس بارے میں بلند و بانگ دعوؤں سے ہی کام چلا رہی ہے۔ حکومت عام طور پر خواتین کو کاروبار میں آسانیوں کے لیے پالیسیاں بنانے میں اعتماد میں نہیں لیتی اور نتیجتاً پالیسیوں میں خامیوں کی وجہ سے خواتین اس سے ٹھیک طرح سے استفادہ نہیں کر پاتیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اس میدان میں اسکور جنوبی ایشیائی خطے کے اوسط اسکور (63.7) سے اب بھی کم ہے۔ جب کہ اس خطے کے دیگر ممالک جیسے بھارت، نیپال، سری لنکا، مالدیپ اور بھوٹان پاکستان سے کہیں آگے ہیں۔
افغانستان اور بنگلہ دیش اس فہرست میں پاکستان سے بھی نیچے ہے۔
واضح رہے کہ خواتین کو معاشی میدان میں یکساں مواقع فراہم کیے جانے کی اس درجہ بندی میں جنوبی ایشیا سے نیپال سب سے آگے ہے۔