ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے پیر کو کہا ہے کہ قلیل عرصے کے بعد دوبارہ ہونے والے انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ’اے کے پی‘ کی کامیابی کا دنیا کو احترام کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ترک عوام نے استحکام کو منتخب کیا ہے۔
اتوار کے انتخابات کے نتیجے میں ترکی میں حکمران جماعت پچاس فیصد سے کچھ کم ووٹ حاصل کرنے کے بعد اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
پانچ ماہ قبل ہونے والے انتخابات میں ’اے کے پی‘ نے ایک دہائی سے زائد عرصہ میں پہلی مرتبہ پارلیمان میں اپنی اکثریت کھو دی تھی۔
حکمران جماعت کو سادہ اکثریت کے حصول کے لیے 18 مزید ارکان کی حمایت درکار تھی لیکن پارلیمان میں موجود باقی تینوں جماعتوں کی جانب سے 'اے کے پی' کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے سے انکار کے بعد صدر طیب اردوان نے دوبارہ انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا تھا۔
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق اتوار کی شب تک تقریباً تمام ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گئی جس کے مطابق حکمران جماعت نے 50 فی صد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
ترکی میں رائج متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت 50 فی صد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرنے کے نتیجے میں 'اے کے پی' پارٹی کو 550 رکنی پارلیمان میں 316 نشستیں حاصل ہونے کی توقع ہے، جس سے وہ بآسانی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔
حزبِ اختلاف کی مرکزی جماعت 'سی ایچ پی' نے 25 فی صد سے کچھ زائد ووٹ لے کر ایوان کی دوسری بڑی جماعت کی اپنی حیثیت برقرار رکھی ہے۔
ترک وزیر اعظم احمد داؤد اغلو نے اتوار کی شام انقرہ میں اپنے حامیوں سے خطاب میں ملک میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے نئے آئین کا بھی مطالبہ دہرایا جس کے تحت اردوان کو مزید انتظامی اختیارات مل سکتے ہیں۔ تاہم پارلیمان میں اکثریت کے باوجود اس جماعت کو آئین میں ترمیم کے لیے مزید ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔
اتوار کو ہونے والی رائے شماری سے پہلے کئی ماہ تک اردوان کی حکومت اور حرب اختلاف کے کرد نواز اتحاد کے درمیان کشیدگی جاری تھی۔
اتوار کو رائے شماری ختم ہونے کے بعد اردوان نے کہا کہ انتخابات کا نتیجہ کرد باغیوں کے لیے پیغام ہے کہ ترکی کے جنوب مشرق میں جاری ’’تشدد اور جہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘
ان انتخابات میں کرد نواز سیاسی جماعت 'ایچ ڈی پی' کی مقبولیت میں کمی آئی ہے جس کے ووٹ پانچ ماہ پہلے کے 13 فی صد کے مقابلے میں لگ بھگ ساڑھے 10 فی صد رہ گئے ہیں۔
کرد نواز سیاسی جماعت 'ایچ ڈی پی' کے علاوہ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی بھی اگلے پارلیمان کا حصہ ہوں گی۔