سعودی زیر قیادت اتحاد کی افواج نے یمن کے دارالحکومت صنعا پر بمباری کی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق عام شہریوں سمیت کم از 20 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ حوثی میڈیا اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 2019 کے بعد یہ سب سے بڑا مہلک حملہ تھا۔
اتحادی جنگی طیاروں نے حوثی فوج کے ایک اعلیٰ افسر کے گھر کو نشانہ بنایا، ہمسایوں اور ایک طبّی ٹیم کے ایک رکن کے مطابق اس حملے میں فوجی افسر کی بیوی اور بیٹے سمیت 14 افراد ہلاک ہوئے۔
اس حملے سے ایک دن قبل اتحادی رکن ملک متحدہ عرب امارات پر ڈرون حملہ ہوا تھا، جس میں تین افراد ہلاک ہوئے اور اس حملے کی ذمّہ داری حوثیوں نے قبول کی تھی۔
اتحادیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیر کے روز سعودی عرب کو نشانہ بنانے والے حوثیوں کے آٹھ ڈرونز کو حملے سے قبل مار گرایا گیا۔
سعودی میڈیا نے اتحادی فوجوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے صنعا میں حوثی گروپ کے مضبوط ٹھکانوں اور کیمپوں پر منگل کو بمباری کی۔
جس عمارت پر حملہ ہوا، اس کے مالک کا نام عبداللہ الجنید بتایا گیا ہے۔ حوثی میڈیا کے مطابق الجنید ہوابازی کالج کے سابق سربراہ تھے۔
حملے کا نشانہ بننے والی عمارت کے ملبے کے قریب ایک شخص احمد الاحدل نے بتایا کہ اس حملے بعد ان کے چچا کے مکان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے چچا اب تک لا پتہ ہیں۔ وہ جنید کے مکان کا ملبہ ہٹانے اور امدادی کام کی غرض سے گئے تھے۔
SEE ALSO: ابوظہبی ایئرپورٹ کے قریب مشتبہ ڈرون حملہ، ایک پاکستانی سمیت تین افراد ہلاکجنید ان 170 حوثی فوجی افسروں میں شامل تھے جن کو مارب کی ایک عدالت نے اگست میں موت کی سزا سنائی تھی۔ مارب کے صوبے میں قائم حکومت کو سعودی حمایت حاصل ہے اور اسے بین الاقوامی برادری یمن کی جائز حکومت تسلیم کرتی ہے۔ مارب کی عدالت نے اکثر ملزمان پر ان کی غیر حاضری میں مقدمہ چلایا تھا اور ان پر فوجی بغاوت اور جنگی جرائم کا الزام تھا۔
شمالی یمن کے بیشتر حصّوں پر حوثیوں کا کنٹرول ہے اور حوثی انتظامیہ کے نائب وزیر خارجہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اس حملے میں 20 کے قریب لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے جس یمنی فوج کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی تھی، اسی نے حال میں تیل سے مالامال شبوہ اور مارب علاقوں میں حوثی فوج کے خلاف جنگ میں حصّہ لیا تھا۔
ابو ظہبی میں پیر کو ہونے والے ڈرون حملوں کے بعد متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ وہ اس دہشت گرد حملے کا جواب دینے حق محفوظ رکھتا ہے۔
(خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)