رسائی کے لنکس

یمن کے تنازع میں اب تک 10 ہزار سے زائد بچے ہلاک یا اپاہج ہو چکے ہیں، یونیسیف


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے، یونیسیف نے یمن کے بارے میں رپورٹ میں بتایا ہے کہ مارچ 2015ء سے سعودی عرب کی حامی حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے تنازعے میں اب تک دس ہزارسے زائد بچے ہلاک یا اپاہج ہو چکے ہیں۔

جنیوا سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں یونیسیف نے صورت حال کو ایک ''شرمناک سنگ میل'' قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب سے لڑائی کا آغاز ہوا ہے ہر روز اوسطاً چار بچے ہلاک یا اپاہج ہوتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاک و اپاہج ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے کہیں زیادہ ہے۔

یونیسیف کے ترجمان، جیمز ایلڈر نے کہا ہے کہ اس تازہ ترین فہرست میں صرف وہ کیسز درج ہیں جن کی اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بچوں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے معاملات ریکارڈ پر نہیں لائے جاتے۔

انھوں نے کہا کہ یہ بڑی تعداد تو ہے، لیکن لڑائی کے علاوہ بچوں کی متعدد ہلاکتیں بالواسطہ اسباب کی بناء پر بھی واقع ہوتی ہیں، ان اسباب کا سد باب ممکن ہو سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہیضہ اور خسرہ کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ غذائیت کا فقدان اور بھوک کی وجہ سے بھی بیماریوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے کے خدشات لاحق رہتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ہر 10 منٹ میں یمن کا ایک بچہ ہلاک ہوتا ہے جس کا علاج کیا جاسکتا تھا۔ اور بدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں سے اتنی بڑی ہلاکتوں سے بچنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ بچوں کے لیے یمن ایک مشکل ترین ملک ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس سلسلے میں صورت حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔

ایلڈر کچھ ہی روز قبل یمن کے دورے سے واپس لوٹے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بچوں کو کئی قسم کے خطرات جھیلنے پڑتے ہیں۔ بقول ان کے پانچ میں سے چار بچے، یا یوں کہیے کہ ایک کروڑ دس لاکھ بچوں کو انسانی بنیادوں پر اعانت کی ضرورت ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ چار لاکھ بچوں کو غذائیت کے شدید فقدان اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔ ادھر 20 لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔

انھوں نے کہا کہ یمن کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے،جہاں لوگ زندگی بچانے کی تگ و دو کررہے ہیں۔

یونیسیف کا کہنا ہے کہ یمن میں سال 2022ء کے وسط تک زندگی بچانے کا کام جاری رکھنے کے لیے ادارے کو 23 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوری مدد درکار ہے۔ بصورت دیگر، ادارے نے انتباہ جاری کیا ہے کہ ادارہ مشکل میں گھرے بچوں کی امداد میں کمی کرنے یا روکنے پر مجبور ہوجائے گا۔

XS
SM
MD
LG