یمن میں حکام نے بتایا ہے کہ ملک کے جنوب میں پیر کو اسلحہ کی ایک فیکٹری میں دھماکے سے کم ازکم 50 افراد ہلاک ہو گئے۔ عہدیداروں کے مطابق صوبہ عابیان کے جار ”Jaar “ نامی شہر میں واقع اس فیکٹری پر ایک روز قبل ہی جنگجوؤں نے قبضہ کیا تھا۔
جار میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے کچھ مزاحمت کے بعد جنگجوؤں نے شہر میں سرکاری عمارتوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ یمن کے عہدیداروں کے مطابق فوجیوں نے جواباً کارروائی کی تھی جس میں ایک فوجی ہلاک ہو گیا تھا جب کہ علاقے میں یمنی لڑاکا طیاروں نے بھی پروازیں کیں۔
ملک میں تشدد کے یہ واقعات ایسے وقت ہورہے ہیں جب یمن پر کمزور ہوتی ہوئی گرفت کے بعد صدر علی عبداللہ صالح سیاسی بحران حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
القائدہ کے مشتبہ جنگجوؤں نے ملک کے مرکزی صوبے ماریب میں اتوار کو فوجیوں پر حملہ کر کے کم از کم چھ اہلکاروں کو ہلاک اور چار کو زخمی کر دیاتھا۔ حکام کے مطابق حملہ آور اہلکاروں سے یمنی فوج کی گاڑی بھی چھین کر لے گئے۔
32 سال سے برسراقتدار صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف کئی ہفتوں سے ملک میں مظاہرے جاری ہیں جن میں اُن سے فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یمنی صدر کی فورسز حزب مخالف کے مظاہرین کے علاو ہ ملک میں موجود القائدہ کے جنگجوؤں سے بھی لڑنے میں مصروف ہیں جوحکومت کے کنٹرول سے باہر علاقوں کو استعمال کر کے نا صرف یمنی حکومت بلکہ مغرب کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
صد ر صالح نے اتوار کو اپنی حکمران جماعت جنرل پیپلزکانگریس پارٹی کے اجلاس میں کہا تھا کہ حزب اختلاف کے گروہوں سے مزید رعایت نہیں برتی جائے گی۔ یمن کے صدر کے عہدے کی معیاد 2013 کے اختتام پر ختم ہورہی ہے اور اُنھوں نے اس سے قبل منصب صدارت چھوڑنے کی پیش کش کی ہے لیکن مظاہرین نے اس کو رد کرتے ہوئے اُنھیں فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کے لیے کہا ہے۔