یمن میں طبی حکام نے بتایا ہے کہ جنوبی شہر طائز میں پولیس کی حکومت مخالف مظاہرین پر فائرنگ سے کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق پیر کو ہونے والے مظاہروں میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے جب صوبائی حکومت کے زیر استعمال عمارتوں پر ہلہ بولا تو اُنھیں پیچھے دھکیلنے کے لیے محافظوں نے اُن پر گولیاں چلا دیں۔
تشدد کے حالیہ واقعے سے ایک روز قبل طائز ہی کے علاقے میں مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
عینی شاہدین نے کہا ہے کہ پیر کے روز ملک کے مغربی شہر ہودیعدا (Hudaida) میں پولیس نے مظاہرے میں شامل سینکڑوں افراد کو منتشر کرنے کے لیے گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کا استعمال کیا جس سے کم از کم 50 افراد زخمی ہو گئے۔
یمن میں صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف جنوری کے اواخر سے مظاہرے جاری ہیں۔ صدر صالح نے حال ہی میں کہا کہ وہ ”آئین کے مطابق“ پرامن انتقال اقتدار کے لیے تیار ہیں۔
اُنھوں نے ملک میں نئے انتخابات کے بعد اقتدار چھوڑنے کی پیش کش کی تھی۔ صدر علی عبداللہ صالح 32 سال سے اقتدار میں ہیں اور اُن کے عہدے کی موجودہ مدت 2013ء میں ختم ہو رہی ہے۔
امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے اتوار کو اپنی ایک خبر میں کہا تھا کہ امریکہ نے صدر علی صالح کی حمایت کم کرنا شروع کر دی ہے اور اُن سے عہدہ چھوڑنے کے بارے میں بات چیت ہو رہی ہے۔
شناخت ظاہر نا کرنے کی شرط پر امریکی اور یمنی حکام نے اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کو بتایا کہ مذاکرات کا آغاز ایک ہفتے قبل ہوا جس کے بعد امریکہ کے موقف میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔
یمنی حکام نے بتایا ہے کہ زیر بحت تجویز کے مطابق صدر صالح اقتدار نائب صدر عبدالرب منصور الحادی کی قیادت میں نگران حکومت قائم کر کے اُسے اقتدار منتقل کر دیں گے جو انتخابات کے انعقاد تک ریاستی اُمور چلائے گی۔