یمن کے حکومت مخالف کارکنوں نے ملک کے کئی شہروں میں صدر علی عبداللہ صالح کی برطرفی کے لیے مظاہرے کیے۔ وہ ان پر اس ہفتے کے شروع میں گولابارود کی ایک فیکٹری میں بم دھماکوں کاالزام لگارہے تھے۔
ذرائع ابلاغ کے مغربی اداروں کا کہناہے کہ بدھ کے روز دارالحکومت صنعا ، وسطی شہر ایب، شمالی شہر صادیہ اور کئی دوسرے علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے ہوئے۔ مسٹر صالح کو، جو مسلسل 32 سال سے اقتدار میں ہیں، کئی ہفتوں سے مخالفانہ مظاہروں کا سامناہے۔ مظاہرین اقتدار سے ان کی رخصتی ، اور ملک سے بدعنوانی اور غربت کے خاتمے کے لیے سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔
مظاہرین نے بدھ کے روز حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ ان بم دھماکوں کے بھی ذمہ دار ہیں جس کے نتیجے میں پیر کے روز جنوبی قصبے جار کے نزدیک واقع گولہ بارود کی ایک فیکٹری تباہ ہوگئی تھی ۔ یہ دھماکے ایک ایسے وقت میں ہوئے جب مقامی آبادی وہاں لوٹ مار کررہی ہے۔ دھماکوں سے لوٹ مار میں مصروف عورتوں اور بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
یمن کی حکومت نے بم دھماکوں کا الزام القاعدہ کے عسکریت پسندوں پر لگایا ہےجنہوں نے واقعہ سے ایک روز قبل وہاں حملہ کیا تھا۔ یہ کہا جارہاہے کہ عسکریت پسندوں نے یہ کارروائی مقامی آبادی کو فیکٹری میں لوٹ مار پر اکسانے کے لیے کی تھی۔
صدر صالح کا کہناہے کہ وہ نئے انتخابات تک اپنا عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے عہدے کی موجودہ مدت 2013ء میں ختم ہورہی ہے۔
حزب اختلاف کی کئی تنظیمیں ان پر فوری طورپر اقتدار چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔