یمن میں صدر عبدربہ منصور ہادی کے حامی قبائلی لشکروں نے ملک کےجنوبی حصے کے کئی صوبوں میں حوثی باغیوں پر حملے کیے ہیں جن کے نتیجے میں باغیوں کے بعض مقامات سے پسپا ہونے کی اطلاعات ہیں۔
عینی شاہدین اور قبائلیوں کے مطابق پیر کو کیے جانے والے حملوں میں قبائلی لشکروں کو سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے عرب اتحاد کے جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل تھی۔
بین الاقوامی امدادی ادارے 'ریڈ کراس' نے کہا ہے کہ لڑائی میں شدت آجانے کے باعث اس نے امدادی سامان یمن لے جانے والے طیاروں کی پرواز ملتوی کردی ہے۔
'ریڈ کراس' کے دو طیاروں کو منگل کو امداد اور ادویات لے کر صنعا پہنچنا تھا۔ لیکن امدادی ادارے کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ یمن پر بمباری کرنے والے عرب اتحاد کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر پروازوں کی روانگی موخر کردی گئی ہے۔
عدن کے رہائشیوں نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ باغی شہر کی بندرگاہ کے نزدیک جمع ہورہے ہیں البتہ وہ قبائلیوں کی سخت مزاحمت کے بعد بندرگاہ سے متصل دو رہائشی علاقوں سے پسپا ہوگئے ہیں۔
حوثی باغیوں نے اتوار کو بندرگاہ اور اس کے نواحی علاقوں پر قبضے کے لیے بڑا حملہ کیا تھا لیکن قبائلیوں کی مزاحمت اور عرب طیاروں کی بمباری کے بعد انہیں پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ علاقے میں اتوار کو ہونے والی جھڑپوں میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
رہائشیوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ عدن کے نزدیک لنگر انداز ایک غیر ملکی بحری جہاز نے شہر کے نواح میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے ہیں۔
لیکن عرب اتحاد کے ایک فوجی ترجمان نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد کے بحری جہاز حوثیوں پر بمباری نہیں کر رہے بلکہ عدن میں پھنسے عام شہریوں کے انخلا کے مشن پر مامور ہیں۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ پہاڑوں، صحراؤں اور ساحلی علاقوں کی وسعت کے باعث یمن کے مختلف علاقوں میں جاری لڑائی کی شدت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اطلاعات ہیں کہ جنوبی یمن کے کئی علاقوں میں حوثی باغیوں اور قبائلیوں کے درمیان سخت لڑائی ہورہی ہے۔