امریکہ کے ماحول دوست نوجوانوں کے حق میں آنے والے ایک عدالتی فیصلے کو ماہرین ایک اہم قانونی فتح قرار دے رہے ہیں۔ریاست مونٹانا کی ایک ڈسٹرکٹ جج نے پیر کے روز اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ریاستی ادارے معدنی ایندھن کے ذرائع کو ترقی دینے کی اجازت دے کر درخواست گزار کے صاف اور صحت مند ماحول کے آئینی حق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
امریکہ میں اپنی نوعیت کے اس پہلے مقدمے کے فیصلے سے دنیا بھر میں اسی نوعیت کے قانونی فیصلوں میں، جن کی تعداد انتہائی مختصر ہے، ایک اور کا اضافہ ہوا ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کو آب و ہوا کی تبدیلیوں سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
اگر یہ فیصلہ برقرار رہتا ہے تو اس سے ایک اہم قانونی نظیر قائم ہو سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے فوری اثرات محدود ہیں اور ریاستی حکام نے کہا ہے کہ وہ اپیل کے ذریعے اس فیصلے کو پلٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔
اس کیس کا فیصلہ ڈسٹرکٹ کورٹ کی جج کیتھی سیلی نے کیا۔ فیصلے کے مطابق ریاست معدنی ایندھن کے اجازت ناموں سے متعلق درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے جس پالیسی پر عمل کرتی ہے، وہ متعلقہ اداروں کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر نظر ڈالنے کی اجازت نہیں دیتی، جو کہ غیر آئینی ہے۔
کسی امریکی عدالت کی جانب سے آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق آئینی حق کی خلاف ورزی پر حکومت کے خلاف فیصلہ دیے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
تاہم اب یہ تعین کرنا ریاست مونٹانا کے قانون سازوں پر منحصر ہے کہ ریاست کی پالیسیوں کو کس طرح رو بہ عمل لایا جائے۔
ایک ایسی ریاست میں جہاں اقتدار کے ایوانوں پر ری پبلیکنز کا غلبہ ہے، معدنی ایندھن کی موافقت والی پالیسیوں میں فوری تبدیلیوں کے امکانات بہت محدود ہیں۔
SEE ALSO:
یورپ اور ایشیا کے نصف بچے شدید گرمی کی لہروں کی زد میں ہیں : یونیسیف انڈونیشیا کا ساحلی گاؤں ’ٹمبلسلوکو‘ کیوں ڈوب رہاہے؟ کیا ہم ارضیاتی تبدیلیوں کے نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں؟کیا پتہ ہم جہنم میں رہ رہے ہوں؟امریکہ میں پینسلوانیا، میسا چوسٹس اور نیویارک سمیت صرف چند ہی ایسی ریاستیں ہیں جن کے آئین میں ماحولیاتی تحفظ کے قوانین موجود ہیں۔
ریاستی حکام نے اس مقدمے کو سماعت میں جانے سے روکنے اور متعدد تحریکوں کے ذریعے اسے خارج کرانے کی کوشش کی تھی۔
اس مقدمے کی مدعی کلیئر ولاسز ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 20 سال ہے اور وہ برف پر پھسلنے کے کھیل کی، جسے سکی کہا جاتا ہے، انسٹرکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی زندگی کے ہر پہلو پر آب وہوا کی تبدیلی اثرانداز ہوتی ہے۔
جب ولاسز نے مقدمہ دائر کیا تو اس وقت وہ 17 سال کی تھیں۔
اس سے قبل سویڈن کے ایک اسکول کی طالبہ گریٹاتھن برگ آب وہوا کی تبدیلی کا عمل روکنے میں حکومتوں کی عدم توجگہی اور سست روی کے خلاف تحریک چلا کر دنیا بھر کی توجہ حاصل کر چکی ہیں۔
یہ مقدمہ دائر کرنے میں ان کے ساتھ 16 ساتھی شریک تھے جن کی عمریں پانچ سال سے لے کر 22 سال تک ہیں۔
دو ہفتے کی سماعت کے دوران وکلا نے یہ شواہد پیش کیے کہ کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کے اخراج میں اضافہ ، زمین کے درجہ حرارت میں اضافے، خشک سالی اور جنگل کی آگ کے واقعات میں اضافے اور برف باری میں کمی کا سبب بن رہا ہے۔
مقدمے کے مدعیوں کا کہنا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جنگلات میں بھڑکنے والی آگ کا دھواں اس ہوا کی آلودہ کر رہا ہے جس میں وہ سانس لیتے ہیں۔ خشک سالی سے دریا خشک پڑ رہے ہیں جو زراعت، مچھلیوں ، جنگلی حیات اور ہماری تفریح کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سماعت میں آبائی امریکیوں نے مدعیوں کے حق میں گواہی دیتے ہوئے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی ان کی تقریبات اور خوراک کے روایتی ذرائع پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
ریاست کی جانب سے مقدمے کی مخالفت میں یہ استدلال پیش کیا گیا کہ اگر ریاست مونٹانا مکمل طور پر بھی کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کا اخراج روک دے تو بھی عالمی سطح پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ دنیا بھر کے ممالک فضا میں کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس پہنچانے میں حصہ ڈالتے ہیں۔
ریاست کا مزید کہنا تھا کہ دوا یا تو مرض دورکر دیتی ہے یا پھر وہ دوا ہی نہیں ہے۔
جج سیلی نے کہا کہ ریاست کے اٹارنی ایسی کوئی وجہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا جائزہ کیوں نہیں لے پا رہے۔
جج نے اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ مونٹانا میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج زیادہ نہیں ہے اور کہا کہ قابل تجدید توانائی پیدا کرنا ٹیکنیکی طور پر قابل عمل اور معاشی طور پر فائدہ مند ہے۔ سماعت میں پیش کی جانے والی شہادتوں کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے کہا کہ مونٹانا سن 2030 تک موجودہ معدنی ایندھن کا 80 فی صد متبادل لا سکتاہے۔
ریاستی اور وفاقی عدالتوں میں آب وہوا کی تبدیلی کا مقدمہ لڑنے کے لیے ولاسز کے ’آور چلڈرن ٹرسٹ‘ نے دو کروڑ ڈالر سے زیادہ کے فنڈز اکھٹے کیے ہیں۔
(ایسوسی ایٹڈ پریس)