رسائی کے لنکس

کیا ہم ارضیاتی تبدیلیوں کے نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں؟


کینیڈا کے صوبے ٹورانٹو میں واقع کرافورڈ جھیل جس کی گہری تہہ میں کرہ ارض کے کروڑوں سال کی تاریخ محفوظ ہے۔ فائل فوٹو
کینیڈا کے صوبے ٹورانٹو میں واقع کرافورڈ جھیل جس کی گہری تہہ میں کرہ ارض کے کروڑوں سال کی تاریخ محفوظ ہے۔ فائل فوٹو

زمین پر تبدیلی کے عمل کی رفتار بہت سست ہے۔ اس میں لاکھوں بلکہ کروڑوں برس لگتے ہیں۔سائنس دان زمین کی پیدائش سے آج تک کے وقت کو چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہم اس وقت چوتھے جغرافیائی عہد کے آخری حصے میں جی رہے ہیں۔جب کہ سائنس دانواں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں کرہ ارض چند عشرے قبل ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔

ماہرین نے اس ارضیاتی دور کو ایتھروپوسین(Anthropocene) کا نام دیا ہے ۔ یہ اصطلاح یونانی زبان کے دو لفظوں سے مل کر بنی ہے جو ’انسان‘ اور ’نیا‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یعنی اس سے مراد ایک ایسا عہد ہے جس میں انسانوں کے ہاتھوں کچھ نیا ہو رہا ہے۔

اس سے قبل زمین پر تبدیلیاں فطری عوامل سے آئیں تھیں جنہیں چار ادوار میں بانٹا جاتا ہے۔ پہلے تین کے نام نیوپراٹروزائک(Neoproterozoic) ، پیلیو زائک (Paleozoic) اور میسوزائک (Mesozoic) ہیں جب کہ چوتھے ارضیاتی دور کو، جس میں ہم اور آپ جی رہے ہیں، سائنسی اصطلاح میں سینوزائک (Cenozoic) کہا جاتا ہے۔

ہماری زمین کا وجود لگ بھگ ساڑھے چار ارب سال پہلے ہمارے نظام شمسی بننے کے ساتھ عمل میں آیا ۔ اس سے قبل یہ اڑتی ہوئی گرم چٹانوں کا ایک مجموعہ تھا جس نے رفتہ رفتہ آپس میں جڑ کرزمین کی شکل اختیار کی اور براعظم، خشکی کے حصے اور سمندر بنے۔ یہ سلسلہ کئی کروڑ سال تک جاری رہا۔

ہمارا نظام شمسی وجود میں آنے سے قبل گیسوں کا ایک مجموعہ تھا جنہوں نے رفتہ رفتہ سرد ہو کر سورج اور اس کے سیاروں کی شکل اختیار کی۔ کائنات میں یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ ناسا کی زمین سے دس لاکھ کلومیٹر فاصلے پر خلا میں گردش کرتی ہوئی جیمز ویب دوربین کی یہ تصویر ایک نئے سیارے کے آغاز کی نشاندہی کر رہی ہے۔
ہمارا نظام شمسی وجود میں آنے سے قبل گیسوں کا ایک مجموعہ تھا جنہوں نے رفتہ رفتہ سرد ہو کر سورج اور اس کے سیاروں کی شکل اختیار کی۔ کائنات میں یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ ناسا کی زمین سے دس لاکھ کلومیٹر فاصلے پر خلا میں گردش کرتی ہوئی جیمز ویب دوربین کی یہ تصویر ایک نئے سیارے کے آغاز کی نشاندہی کر رہی ہے۔

زمین کے بننے کے بعد اس گرم کرہ کے ٹھنڈا پڑنے کا عمل شروع ہوا اور سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ یہ سلسلہ کئی کروڑ سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ زمین کا درجہ حرارت زندگی کے پنپنے کے قابل ہو گیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب زمین پر زندگی کی ابتدا ہوئئ۔

ماہرین کا خیال ہے کہ زندگی کی ابتدائی شکل ایک خلیے والے جراثیم سے ہوئی جو خود کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی نسل آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔سمندری چٹانوں میں ایسی علامات موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ تقریباً تین ارب سال پہلے زندگی وجود میں آ چکی تھی۔

دوسرے دور کا آغاز لگ بھگ 50 کروڑ سال پہلے ہوا جو 25 کروڑ برس تک جاری رہا۔ اس دوران زندگی کی دیگر مختلف ابتدائی ترین اشکال کا جنم ہوا۔جن میں پانی کے ابتدائی جاندار اور نباتات وغیرہ شامل ہیں۔

تیسرے دور کی شروعات 25 کروڑ سال قبل ہوئی اور اس کا اختتام 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے اس وقت ہوا جب ایک بہت بڑے شہاب ثاقب نے زمین سے ٹکرا کر بڑی پیمانے پر تباہی پھیلا دی۔

یہ ڈینوساروں کی مختلف اقسام کا زمانہ تھا، جن کا کرہ ارض پر بلاشرکت غیرے راج تھا۔شہاب ثاقب نے ڈنیوساروں کی پوری نسل کا ہی خاتمہ کر دیا۔جس کے بعد دوسرے جانوروں کو پنپنے کا موقع ملا اور ان کی نسلوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

چوتھے اور موجودہ زمینی دور کی ابتدا 6 کروڑ 60 لاکھ سال پہلے ہوئی تھی ۔اس میں زندگی کی ان گنت اقسام کا جنم ہوا۔ جس میں سب سے آخر میں انسان آیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جدید انسان کا جنم تقریبا دو لاکھ سال پہلے ہوا تھا۔

کروڑوں سال پہلے کرہ ارض پر صرف ڈینوساروں کا راج تھا۔ یہ سائز میں ناقابل یقین حد تک بڑے بھی تھے اور بہت چھوٹے بھی۔ یہ سبزی خور بھی تھے اور گوشت خور بھی۔ ان کی بے شمار اقسام تھیں جو پانی، خشکی اور فضا میں ہر جگہ موجود تھیں۔ ان کی نسل تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے زمین پر شہاب ثاقب ٹکرانے سے ہونے والی تباہی میں مٹ گئی تھی۔
کروڑوں سال پہلے کرہ ارض پر صرف ڈینوساروں کا راج تھا۔ یہ سائز میں ناقابل یقین حد تک بڑے بھی تھے اور بہت چھوٹے بھی۔ یہ سبزی خور بھی تھے اور گوشت خور بھی۔ ان کی بے شمار اقسام تھیں جو پانی، خشکی اور فضا میں ہر جگہ موجود تھیں۔ ان کی نسل تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے زمین پر شہاب ثاقب ٹکرانے سے ہونے والی تباہی میں مٹ گئی تھی۔

چوتھے ارضیاتی دور کے آخری حصے کو کواٹرنیری عہد کہا جاتا ہے۔ یہ مدت زمین کی کل تاریخ کی محض ایک فی صد ہے، لیکن اس لحاظ سے اہم ہے کہ سب سے بڑی تبدیلیاں اسی مدت میں ظاہر ہوئی، جن میں ایک اہم واقعہ ساڑھے گیارہ ہزار سال پہلے برفانی دور کا خاتمہ ہے۔

برفانی دور اندازً 24 لاکھ سال پہلے شروع ہوا تھا۔ اس کے آغاز کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر زندگی کے ابتدائی دور میں بڑی تعداد میں ایسی جراثیمی حیات کا جنم ہوا جنہیں کاربن ڈائی اکسائیڈ کی ضرورت تھی۔ ان کی لامحدود تعداد نے کرہ فضائی میں موجود زیادہ تر کاربن ڈائی اکسائیڈ کو جذب کر لیا جس سے زمین کی حرارت کو خلا میں واپس جانے سے روکنے کے قدرتی نظام میں خلل پڑا اور زمین ٹھنڈی ہونا شروع ہو گئی۔ برفانی عہد میں زمین کے زیادہ تر حصے پر برف جم گئی جو آج بھی گلیشیئرز کی شکل میں موجود ہے۔

برفانی دور کے خاتمے کے بعد جب زمین گرم ہونا شروع ہوئی تو تبدیلیوں کے عمل میں بھی تیزی آئی۔ جیسے جیسے انسان ترقی کر رہا ہے، گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔گلیشیئرز کی تیزی سے گھٹتی ہوئی رفتار چوتھے ارضیاتی دور کے خاتمے پانچویں دور کی نوید دے رہی ہے۔

الاسکا میں 2013 میں ایک چھ ہفتوں کی بچی کی باقیات دریافت ہوئیں تھیں جس کا تعلق ساڑھے گیارہ ہزار سال پہلے کے برفانی دور سے تھا۔ 2018 میں جاری ہونے والی اس پینٹنگ میں برفانی دور کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس سرد ماحول میں اس دور کا انسان کیسے زندگی گزارتا تھا۔
الاسکا میں 2013 میں ایک چھ ہفتوں کی بچی کی باقیات دریافت ہوئیں تھیں جس کا تعلق ساڑھے گیارہ ہزار سال پہلے کے برفانی دور سے تھا۔ 2018 میں جاری ہونے والی اس پینٹنگ میں برفانی دور کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس سرد ماحول میں اس دور کا انسان کیسے زندگی گزارتا تھا۔

سائنس دانوں کا ایک گروپ اس نظریے پر متفق ہے کہ کرہ ارض کے پانچویں دور ’اینتھروپوسین‘ کی شروعات ہو چکی ہے اور اس کی علامتیں 1950 اور 1954 کے درمیان ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس دور کی بنیاد حضرت انسان نے انتہائی مستقل مزاجی سے اپنے اعمال کے ذریعے رکھی ہے، جن میں معدنی ایندھن کابے دریغ استعمال، بڑھتی ہوئی آلودگی، جوہری تابکاری، کیمیائی کھادیں، پلاسٹک کے کچرے کے زمین اور آبی ذخائر پر منفی اثرات شامل ہیں جو آب و ہوا کی تبدیلی کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔

سائنس دان کرہ ارض کے ادوار کا مطالعہ کسی ایسے مقام پر کرتے ہیں جہاں زمین کی ابتدا کے بعد سے گزرنے والا وقت اپنے نشانات ثبت کر جاتا ہے۔ ایک ایسا ہی مقام کینیڈا میں واقع ہے۔یہ ٹورانٹو کے قریب واقع ایک قدیم جھیل ہے جس کا نام ’کرافورڈ ‘ ہے۔

اس گہری جھیل کی خوبی یہ ہے کہ اس میں پانی کی تہیں ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوتیں اور اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھتی ہیں۔ پانی کی یہ پرتیں اپنے اندر زمین کی کروڑوں برسوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔

کرافورڈ کی گہرائی 79 فٹ ہے اور یہ تقریباً 24 ہزار مربع میٹر کے رقبے میں پھیلی ہوئی ہے۔یہ جھیل دنیا کے ان 11 مقامات میں سے ایک ہے جس میں کروڑوں برسوں کے دوران زمین پر ہونے والی تبدیلیوں ، ماحول اور حیاتیات کے اثرات سمیت جوہری تابکاری، آلودگی اور گلوبل وارمنگ کی علامتیں محفوظ ہیں ۔

کینیڈا کی بروک یونیورسٹی میں ارضیات کے پروفیسر فرانسین میکارتھی پانچویں ارضیاتی دور کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک گروپ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ کرافورڈ جھیل کے ایک ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کرافورڈ جھیل میں ہمیں ایسی علامتیں اور اشارے ملتے ہیں کہ 1950 کے لگ بھگ زمین کے قدرتی نظام پر انسانی سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔

بھاپ سے چلنے والے انجن کی ایجاد نے صنعتی ترقی کے دور کی بنیاد رکھی۔ جس کے بعد انسان نے معدنی ایندھن سمیت توانائی کے مختلف ذرائع سے کام لینا شروع کر دیا۔ صنعتی ترقی بڑی مقدار میں کاربن گیسوں کو جنم دے رہی ہے جس سے کرہ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کاربن گیسوں کا اخراج نہ روکا گیا تو یہاں زندگی کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔
بھاپ سے چلنے والے انجن کی ایجاد نے صنعتی ترقی کے دور کی بنیاد رکھی۔ جس کے بعد انسان نے معدنی ایندھن سمیت توانائی کے مختلف ذرائع سے کام لینا شروع کر دیا۔ صنعتی ترقی بڑی مقدار میں کاربن گیسوں کو جنم دے رہی ہے جس سے کرہ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کاربن گیسوں کا اخراج نہ روکا گیا تو یہاں زندگی کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔

اس گروپ کے ایک رکن اور برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیسٹر کے ماہر ارضیات کولن واٹرس کہتے ہیں کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث تبدیلی کے عمل کا ناقابل یقین حد تک تیز ہونا بالکل واضح ہو چکا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے سائنسی امور کے سابق مشیر جان ہولڈرین انتھروپوسین تحقیقی گروپ کا حصہ نہیں ہیں ۔ ان کے خیال میں نئے ارضیاتی دور کی ابتدا 1950 کے عشرے سے قبل ہی ہو چکی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ارضیاتی ماحول کو تبدیل کرنے کی ہماری صلاحیت اور اہلیت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ ہم یہ اندازے لگاتے ہیں کہ انسانی سرگرمیوں سے کرہ ارض کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اگر انسان واقعی کرہ ارض کے پانچویں دور میں داخل ہو چکا ہے تو یہ خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہے۔انتہائی تیزی سے رونما ہونے والی ارضیاتی تبدیلیاں اس زندہ سیارے کو ایک ایسی سمت میں دھکیل رہی ہیں جس میں حیات کا پنپنا دشوار ہوتا جائے گا اور انسان کو اپنی بقا کے لیے یا تو کسی دوسرے سیارے میں پناہ لینی پڑے گی یا فنا کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔

ہاروڈ یونیورسٹی میں سائنس کی تاریخ کے پروفیسر ناؤمی روریسکس کہتے ہیں کہ اگر آپ کو یونانی ادب کے عظیم سانحوں کا علم ہے تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ قوت اور سانحہ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اندھی قوت سانحات کو جنم دیتی ہے۔ حضرت انسان کی بے لگام منفی سرگرمیوں نے اسے ایک ایسی رتھ پر سوار کر دیا ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کے المیے کی جانب سرپٹ دوڑ رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG