امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے وسطی ایشیا ممالک کے دورے اور افغان صدر اشرف غنی سے ویڈیو کانفرنسنگ کا دورہ کیا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے پاکستان دورے میں وزارتِ خارجہ میں وزیرِ خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں خطے کی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ افغان امن عمل کے حوالے سے خصوصی طور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے حملے میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا جب کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے بروقت کارروائی کو سراہا۔
اس موقع پر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل میں اب تک ہونے والی پیش رفت حوصلہ افزا ہے۔ فریقین کی جانب سے بین الافغان مذاکرات کے آغاز پر آمادگی خوش آئند ہے۔ ان مذاکرات سے افغانستان میں مستقل اور دیرپا امن کی راہ ہموار ہو گی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان امن عمل اب ایک اہم مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اس موقع پر ان عناصر سے خبردار رہنا ہو گا جو افغانستان میں قیامِ امن کی کاوشوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ افغانستان کے مسئلے کے مستقل اور پُر امن سیاسی حل کے لیے پاکستان علاقائی و عالمی فریقین کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔ پورے خطے کی تعمیر و ترقی کا انحصار افغانستان میں قیام امن سے مشروط ہے۔
قبل ازیں زلمے خلیل زاد نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
زلمے خلیل زاد کے مطابق ان ملاقاتوں میں سرمایہ کاری سے متعلق مواقع زیر بحث آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ مستحکم اور پر امن افغانستان نہ صرف خطے بلکہ پورے وسط ایشیا کے امن اور ترقی کے لیے اہم ہے۔
انہوں نے وسطی ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ سے کہا کہ جب افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو جائے تو ہم سب کو مل کر اس کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
خیال رہے کہ زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے صدر اشرف غنی سے ویڈیو لنک کے ذریعے رابطہ کیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ سے زلمے خلیل زاد نے کابل نہ جانے کی وجہ وہاں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو قرار دیا تھا۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد پاکستان، قطر اور ازبکستان کا دورے کر رہے ہیں۔ ان کے دورے کا مقصد بین الافغان مذاکرات شروع کرانے کے لیے کی جانے کوششوں کو تیز کرنا ہے۔
اس دورے کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ دورے میں افغانستان کی اقتصادی بحالی اور خطے میں پائیدار امن و استحکام کے فروغ جب کہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں نمایاں پیش رفت ہو چکی ہے۔ اب تک افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں میں سے 75 فی صد کو رہا کر دیا ہے جب کہ طالبان نے بھی افغان حکومت کے 600 سے زائد قیدی رہا کیے ہیں۔
واضح رہے کہ منگل کو امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار ملا عبدالغنی برادر میں بھی رابطہ ہوا ہے۔ ٹیلی دونوں رہنماؤں میں والی اس گفتگو میں افغان امن عمل سمیت قیدیوں کے تبادلے پر مشاورت کی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن آرٹیگس نے کہا ہے کہ وڈیو کانفرنس کے ذریعے وزیر خارجہ پومپیو نے طالبان کے چیف مذاکرات کار ملا برادر کے ساتھ امریکہ طالبان سمجھوتے پر عمل درآمد کے معاملے پر گفتگو کی۔
ترجمان نے کہا کہ وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ طالبان سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں گے، جس میں امریکیوں پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی شامل ہے۔
طالبان ترجمان سہیل شاہین نے مزید بتایا کہ پومپیو اور ملا غنی برادر نے بین الافغان مذاکرات اور پانچ ہزار طالبان جنگجوؤں کی رہائی کے معاملات پر بھی تبادلۂ خیال کیا ہے۔
سہیل شاہین نے کہا کہ طالبان بین الافغان مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن قیدیوں کی رہائی میں تاخیر سے معاملہ التوا کا شکار ہے۔
خیال رہے کہ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اب تک چار ہزار کے لگ بھگ طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے تاکہ بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔
رواں سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ ختم ہونے کے امکانات روشن ہو گئے تھے۔
معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات تاحال شروع نہ ہونے سے امن معاہدے پر سوالیہ نشان لگ گئے تھے۔ اسی لیے امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد بھی ایک بار پھر خطے کے دورے پر ہیں۔