پاکستان میں حکام نے صدر آصف علی زرداری سے منسوب اُس مبینہ خط کی بظاہر تحقیقات شروع کر دی ہیں جس میں فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کی برطرفی کے لیے امریکی صدر براک اوباما سے مدد طلب کی گئی تھی۔
وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کو حکومت نے اسلام آباد طلب کیا ہے تاکہ وہ سیاسی قیادت کو اصل صورت حال سے آگاہ کر سکیں۔
’’دیکھیں اس حوالے سے امریکہ میں پاکستان کے سفیر کو واپس آنے دیں تاکہ وہ ہمیں اپ ڈیٹ کریں اور اپنا نقطہ نظر پیش کریں کہ اس (خط) کے پیچھے کیا حقیقت ہے۔ (ہماری) لیڈر شپ چاہتی ہے کہ وہ پروب (اس کی تحتقیات) کرے اور اُن تمام افراد کو بے نقاب کرے جن کی وجہ سے اس قسم کی غلط فہمیوں کو پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘
وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت کا مقصد بالکل واضح ہے کہ تحقیقات کے ذریعے ایسے ’’افراد کو بے نقاب کرے جو ملک کے اداروں یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد ایک بڑی کاروباری شخصیت منصور اعجاز نے گزشتہ دنوں اپنے ایک اخباری مضمون میں انکشاف کیا تھا کہ واشنگٹن میں ایک اعلیٰ پاکستانی سفارت کار کے کہنے پر اُنھوں نے صدر زرداری کا ایک خط سابق امریکی ایڈمرل مائیک ملن کو پہنچایا تھا جس میں صدر براک اوباما سے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کو برطرف کرنے کے لیے مدد مانگی گئی تھی۔
بقول منصور اعجازکے یہ خط اُنھوں نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن کے ایک ہفتے بعد وائٹ ہاؤس کے حوالے کیا تھا۔
اس مبینہ خط کے مندرجات کے مطابق پاکستانی صدر نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اسامہ کی ہلاکت کے لیے کیے گئے آپریشن کے بعد پاکستانی فوجی قیادت ان کی حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے اس لیے وہ جنرل اشفاق کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو برطرف کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے انھیں امریکہ کی حمایت درکار ہو گی۔ مبینہ خط میں اس حمایت کے بدلے عسکریت پسندوں کے ساتھ پاکستان کے تمام رابطے ختم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی۔
سابق امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل ملن کے ایک ترجمان کی طرف سے گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے بیان میں منصوراعجاز نامی کسی شخص سے ایسا پیغام وصول کرنے کی تردید کی جا چکی ہے۔ بقول ملن کے ترجمان کے اُنھیں روزانہ سرکاری اور غیر سرکاری شخصیات کی طرف سے بڑی تعداد میں پیغامات ملتے رہتے تھے لیکن انھیں یہ یاد نہیں کہ ان میں کوئی منصور اعجاز بھی تھا۔
پاکستانی صدر کے ترجمان بھی آصف علی زرداری سے منسوب اس خط کو تصوراتی قرار دے کر اس کی تردید کر چکے ہیں۔
لیکن پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے ایک طویل بیان میں اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ اُس اعلیٰ پاکستانی عہدے دار کا نام منظر عام پر لے آئیں گے جس نے اُنھیں ایڈمرل ملن کو خط پہنچانے کا مشن سونپا تھا۔
اُن کے اس تازہ بیان کے بعد پاکستانی میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ واشنگٹن میں امریکی سفیر حسین حقانی ہی دراصل وہ شخصیت ہیں جنھوں نے صدر زرداری کی طرف سے یہ مبینہ خط منصور اعجاز کو دیا تھا اس لیے فوجی قیادت کی طرف سے اس معاملے پر تحفظات کے اظہار کے بعد اب پاکستانی سفیر کو وضاحت کے لیے وطن واپس بلایا گیا ہے۔
بدھ کی رات قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے بھی صدرسے منسوب مبینہ خط کے بارے میں حکومت سے وضاحت طلب کی۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نےاس کا جواب دیتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ صدراوروزارت خارجہ کی طرف سےاس خط کی تردید کی جاچکی ہے۔
’’اورمیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ چاہے وہ (حسین حقانی) سفیر ہوں یا نہیں اُنھیں پاکستان طلب کیاجائےگا اورانھیں قیادت کو وضاحت دینی ہوگی کہ یہ خط کیسے آیا۔ اس لیے اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔‘‘