سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے کمرۂ عدالت نمبر ایک میں پہنچا تو سماعت شروع ہونے سے قبل اسے براہ راست نشر کرنے کے انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی تھی۔
کمرۂ عدالت میں سینئر وکلا کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے قائدین کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ اسی اثنا میں سابق صدر آصف زرداری کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے اور چیف جسٹس کی نشست کے سامنے سائلین کی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ ان کے دائیں جانب بلاول بھٹو جب کہ بائیں جانب راجہ پرویز اشرف براجمان ہوئے۔
اسے اتفاق کہا جائے کہ جس نشست پر آصف زرداری بیٹھے تھے اسی نشست پر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں پیشی پر بیٹھے تھے۔
دس منٹ تاخیر سے لارجر بینچ کے اراکین کمرۂ عدالت میں پہنچے اور چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سماعت کا آغاز ہوا۔
کمرۂ عدالت میں آگے لگی ہوئی نشستوں پر سینئر وکلا بیٹھے ہوئے تھے جن میں تین سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی، نیئر بخاری اور فاروق ایچ نائیک بھی شامل تھے جب کہ احمد رضا قصوری، علی احمد کرد اور دیگر سینئر وکلا بھی سماعت کا حصہ تھے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست سے پہلے ہی ہم نے اس مقدمے کی سماعت کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ صدارتی ریفرنس ہے تو کیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ حکومت اس صدارتی ریفرنس کو چلانا چاہتی ہے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ یہ ریفرنس اتنے سال تک کیوں سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مائی لارڈ اس کا جواب تو آپ دے سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل کے اس برجستہ جواب پر کمرۂ عدالت میں کچھ لمحوں کی خاموشی چھا گئی اور پھر تمام ججز بے ساختہ مسکرا دیے۔
سماعت کے دوران جب اٹارنی جنرل بیان دے رہے تھے تو چیف جسٹس کی جانب سے تیسری مرتبہ بلانے پر فاروق ایچ نائیک پچھلی نشستوں سے اٹھ کر روسٹرم پر آئے تو جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ "نائیک صاحب آپ روسٹرم کے قریب تشریف رکھیے، آپ سینئر وکیل ہیں بار بار دور سے بلاتے ہوئے اچھا نہیں لگتا۔"
اس پر بلاول بھٹو نے شیری رحمن سے کوئی سرگوشی کی جس کے بعد شیری رحمن نے آگے روسٹرم کے قریب کی نشستوں پر بیٹھے ہوئے رضا ربانی سے کچھ کہا تو وہ اپنی نشست سے اٹھ گئے۔ تاہم فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وہ جہاں بیٹھے ہیں وہیں ٹھیک ہیں۔
سماعت کے دوران بلاول بھٹو متعدد بار روسٹرم پر فاروق ایچ نائیک کے پاس جاتے اور انہیں کچھ کہ کر واپس اپنی نشست پر آجاتے۔ ایک موقع پر جب عدالتی معاونین مقرر کیے جانے کی بات ہو رہی تھی تو فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وہ اپنے موکل سے پوچھ کر عدالتی معاونین تجویز کریں گے۔
اس پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے موکل آپ سے بہت دور نہیں ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے پیچھے مڑ کر بلاول بھٹو کی طرف دیکھا جیسے انہیں روسٹرم پر بلا رہے ہوں تو چیف جسٹس نے فوراً کہا کہ نائیک صاحب آپ خود ہی بلائیں۔
جسٹس فائز عیسی آڈر آف دی ڈے لکھوا رہے تھے کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے متعلق پوچھا تو فاروق نائیک نے کچھ سوچنے کے بعد پانچ اور پھر چھ لکھوائے۔ اس پر بلاول بھٹو اٹھ کر روسٹر پر آ گئے اور تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے آٹھ گرینڈ چلڈرن ہیں۔
چیف جسٹس نے بلاول بھٹو سے پوچھا کہ آپ کو نکال کر آٹھ ہیں یا کل آٹھ پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں۔ تو بلاول بھٹو نے کہا کہ مجھ سمیت کل آٹھ ہیں۔
SEE ALSO: ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا معاملہ سپریم کورٹ میں دوبارہ زیرِ سماعت کیوں ہے؟سماعت کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک رہنما سے پوچھا گیاکہ ذوالفقار علی بھٹو کے آٹھ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں کیسے ہو گئیں؟ وہ تو شاید چھ ہیں تو انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے اپنی ہمشیرہ بختاور بھٹو کے دو بچوں کو بھی شامل کیا ہے۔
کمرۂ عدالت میں مجموعی طور پر ماحول خوش گوار رہا البتہ دو مواقع پر چیف جسٹس نے احمد رضا قصوری اور علی احمد کرد کو بات کرنے سے روک دیا۔ احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کو عام انتخابات کے بعد سماعت کے لیے لگایا جائے کیوں کہ اسے سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا۔
احمد رضا قصوری کے اس بیان پر بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے بھی احمد رضا قصوری کی استدعا کو یہ کہتے ہوئے یکسر مسترد کردیا کہ پہلے ہی اس ریفرنس کی سماعت میں کافی دیر ہو چکی ہے لہذا اس میں مزید تاخیر نہیں کر سکتے۔
احمد رضا قصوری نے اپنی بات پر اصرار کیا تو چیف جسٹس نے انہیں اپنی نشست پر بیٹھنے کا کہا اور کہا کہ آپ سینئر وکیل ہیں ہم آپ سے صرف درخواست ہی کر سکتے ہیں کہ تشریف رکھیں۔