پاکستان کے انتخابات کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات پر امریکہ تشویش کا اظہار کر چکا ہے اور وہ انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی میزبانی میں قطر کے شہر دوحہ میں افغانستان کے موضوع پر ایک اہم عالمی مذاکرہ منعقد ہو رہا ہے جس میں پہلی مرتبہ طالبان کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کو آٹھ فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنانا چاہیے۔
آزاد اراکین کو کامیابی کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد تین روز میں کسی بھی سیاسی جماعت کو شامل ہونے کا وقت دیا جاتا ہے۔
وفاق میں آئندہ حکومت کے امکان پر بات کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وفاق میں حکومت کا فیصلہ پنجاب کرتا ہے اور پیپلز پارٹی ایک عرصے سے اس صوبے سے نشستیں حاصل نہیں کر رہی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول کا کہنا ہے جن حالات میں انتخابات ہو رہے ہیں اس میں کسی جماعت کے لیے بغیر کسی سپورٹ کے وزیرِاعظم بنانا مشکل ہوگا۔ انتخابات میں ایم کیو ایم کو اتنی نشستیں مل جائیں گی کہ وہ کلیدی کردار ادا کرسکے۔ خالد مقبول صدیقی کا انٹرویو دیکھیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور جماعت کے وزارت عظمی کے امیدوار بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ نواز شریف انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر الیکشن میں گڑبڑ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول اب الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن سے اتحاد بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ یہ میثاق جمہوریت والی مسلم لیگ ن نہیں رہی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے مطابق ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کم کرنے کے لیے پہلا قدم سیاست دانوں کو اٹھانا ہوگا۔ وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی رہنما اختلافات کو سیاست تک محدود رکھیں۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ 2018 میں اسٹیبلشمنٹ جس حکومت کو اقتدار میں لائی اس کی وجہ سے فوج کو آج بھی تنقید کا سامنا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن کہتے ہیں کہ ریاست اور اس کے کرتا دھرتا عمران خان کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں اس پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ سائفر کیس کے فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے رؤف حسن کا کہنا تھا کہ فیصلے کو اعلٰی عدلیہ میں چیلنج کیا جائے گا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کہتے ہیں کہ انتخابی عمل کے آغاز کے باوجود پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں نرمی نہیں ہوئی۔ مقتدر حلقے کو ادراک ہونا چاہیے کہ اب بہت ہو گیا، ہمیں ایسی جگہ نہ لے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔
چیئرمین تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر علی خان کہتے ہیں کہ اگر سرکار، عدلیہ اور الیکشن کمیشن آسانی پیدا کریں گے تو آگے بڑھ سکیں گے۔ ہمیں الیکشن میں حصہ لینے دیں۔ پی ٹی آئی کی بلے کا انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد انتخابی حکمتِ عملی کیا ہے؟ جانیے علی فرقان کے ساتھ بیرسٹر گوہر علی خان کے انٹرویو میں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایران نے پاکستان کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے حملہ کیا ہے جس کا مقصد اپنی عوام کو اپنی عسکری صلاحیت دکھانا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سینیٹر آصف کرمانی کا کہنا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ سے پھسل چکا ہے۔ وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں آصف کرمانی کا کہنا تھا کہ پارٹی میں کچھ ایسے لوگ آ گئے ہیں جو نواز شریف کا فیصلہ بدلنے کی بھی قدرت رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر آصف کرمانی کا کہنا تھا کہ نواز شریف مشاورت سے فیصلہ سازی کرتے تھے اور فیصلہ ہونے کے بعد اس پر کوئی دوسرا ذہن نہیں ہوتا تھا اور فیصلے پر فوری عمل درآمد کرا دیا جاتا تھا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب نواز شریف کے فیصلوں کو تاخیری حربے استعمال کرنے کے بعد تبدیل کرا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے ایوانِ بالا کے رکن سینیٹر دلاور خان نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں عام انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد منظور ہونے کے بعد اب اس پر عمل در آمد کا مطالبہ کیا ہے۔ جب کہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی قرارداد کی بنیاد پر عام انتخابات ملتوی کرنے سے انکار کر دی ہے۔
انتخابات کے التوا کی قرارداد کی حمایت کرنے والے سابق قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ہدایت اللہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے خلاف نہیں۔ لیکن چاہتے ہیں کہ الیکشن میں کسی کا خون نہ بہے۔
پاکستان کے سینئر سیاست دان اور سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سردار مہتاب احمد خان کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی فیصلہ سازی اب نواز شریف کے ہاتھ میں نہیں رہی اسی وجہ سے سینئر رہنما اور پرانے کارکنان پارٹی سے دور ہو رہے ہیں۔
سینئر سیاست دان اور سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سردار مہتاب احمد خان کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی فیصلہ سازی اب نواز شریف کے ہاتھ میں نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ سینئر پارٹی قائدین اور پرانے کارکنان جماعت سے دور ہو رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے علی فرقان کے ساتھ سردار مہتاب خان کا انٹرویو دیکھیے۔
پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے جولائی میں آئی اایم ایف وفد سے ہونے والی ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ’الیکشن کے بعد جب تک نئی حکومت نہیں آتی تب تک آئی ایم ایف معاہدے کی حمایت کرتے ہیں۔‘
مزید لوڈ کریں